جین گرو اچاریہ لوکیش نے کہاکہ ہم جنس شادی کی قانونی منظوری ہندوستان کے قدیم اقدار پر مبنی معاشرے کے اخلاق کے خلاف ہوگی۔
نئی دہلی۔بعض اقلیتی گروپس نے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کو تحریر روانہ کرتے ہوئے اپنے مذہبی عقائد کا حوالہ دیا تاکہ ہم جنس چادی کی مخالفت کا اظہار کرسکیں‘ یہ وہ معاملہ ہے جس پر سپریم کورٹ میں سنوائی ہوئی ہے۔
ایک تنظیم ہندوستان میں گرجا گھروں کا اشتراک نے اسی طرح کے نظریات صدر درپوڈی مارمو کوروانہ کئے گئے مکتوب میں کیا ہے۔
مرکز نے سپریم کورٹ میں ہم جنس شادی کی قانونی توثیق کے لئے درخواستوں کے ایک جتھے کی بھی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ اس سے پرسنل لازاورقبول شدہ سماجی اقدار کے نازک توازن کے ساتھ مکمل تباہی ہوگی۔
چشتی فاونڈیشن اجمیر کے سید سلمان چشتی نے چندرچوڑ کو اپنی”تشویش او رتحفظات“ سے آگاہ کرتے ہوئے دعوی کیاہے کہ ہم جنس شادی کے لئے کوئی بھی قانونی توثیق ہندوستان کی مذہبی‘ سماجی اور اخلاقی اقدارسے متصادم ہوگی‘اور ذاتی قوانین اور قبول شدہ سماجی اقدار کے بارے میں نازک توازن کے ساتھ ’تباہی‘کاسبب بنے گی۔
انہوں نے کہاکہ ”ہندوستان دنیا بھر میں سکیولر کے ساتھ کثیر العقیدہ سیاق وسباق کے طور پر پہنچاناجاتا ہے‘ یہ واقعہ بہت پیچیدہ او رحساس مسئلہ ہے جس پر رائے کو قومی پالیسیوں کا حصہ بنانے سے پہلے محتاط غور وفکراور سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے“
۔چشتی نے اس طرح کی شادی کی قانونی توثیق کی درخواست کی مخالفت کرنے کے لئے اسلامی عقائد کا حوالہ دیا۔ اس طرح کی ایک درخواست پر ہندوستان میں گرجا گھروں کے اشتراک سے تعلق رکھنے والے پرکاش تھامس نے ”حیرت“ کا اظہار کیاہے۔
عیسائی عقائد کے مطابق شادی خدا کابنایا ہوا ایک خاندانی ادارہ ہے اور وہ دو ہم جنس پرستوں کے ملاپ کو شادی کے طور پر قبول نہیں کرسکتا‘انہوں نے صدر جمہوریہ پر زوردیاکہ وہ ایسی شادی پر جمود کو یقینی بنائیں۔
جین گرو اچاریہ لوکیش نے کہاکہ ہم جنس شادی کی قانونی منظوری ہندوستان کے قدیم اقدار پر مبنی معاشرے کے اخلاق کے خلاف ہوگی۔
انہوں نے کہاکہ ہندوستانی ثقافت میں خاص طور پر جینوں میں شادی خاندانی درخت کو بڑھانے کے لئے تولید کی بنیاد ہے۔ پسماندہ مسلمانوں کے گروپ سے تعلق رکھنے والے پرویز حنیف نے بھی ان کے گروپس سے میل کھاتے تاثرات کا اظہار کیاہے۔