مسلم حکمران روادار نہ ہوتے تو ہندوستان میں ہندو باقی نہ رہتے

   


کرناٹک کے ریٹائرڈ جج کی حق گوئی پر تنازعہ، مغل حکمرانوں نے جبری تبدیلی مذہب نہیں کیا
حیدرآباد ۔2 ۔ڈسمبر (سیاست نیوز) کرناٹک میں ایک ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ جج نے مسلم حکمرانوں کی رواداری کے حق میں بیان دے کر بی جے پی و سنگھ پریوار کو بے چین کردیا ہے۔ ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ جج وسنت ملاسا ولگی نے کہا کہ اگر مسلم حکمراں رواداری کا مظاہرہ نہ کرتے تو ہندوستان میں ہندوؤں کا وجود خطرہ میں پڑجاتا۔ مسلم حکمرانوں نے رواداری کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجہ میں ہندوستان میں ہندو موجود ہیں۔ دستور ہند کے مقاصد کی تکمیل کے موضوع پر وجئے پورہ میں سمینار سے خطاب میں ریٹائرڈ جج نے کہا کہ اگر مغل دور حکومت میں مسلمان ہندوؤں کی مخالفت کرتے تو ہندوستان میں ایک بھی ہندو باقی نہ رہتا۔ اگر وہ چاہتے تو تمام ہندوؤں کو ختم کرسکتے تھے۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر سینکڑوں برس حکمرانی کی پھر بھی مسلمان اقلیت میں ہیں۔ سوشیل میڈیا پر ریٹائرڈ جج کی تقریر کے وائرل ہوتے ہی ہندو تنظیموں نے احتجاج کیا۔ راشٹریہ سو ہردا ویدیکا اور دیگر تنظیموں نے سمینار کا انعقاد عمل میں لایا تھا۔ ریٹائرڈ جج ایم وسنت نے مزید کہا کہ ایسے لوگ جو مسلمانوں کے بارے میں مختلف دعوے کرتے ہیں ، انہیں جاننا چاہئے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی 700 سالہ حکمرانی کی تاریخ کیا کہتی ہے۔ مغل بادشاہ اکبر کی اہلیہ ہندو برقرار رہیں اور انہیں تبدیلی مذہب کے ذریعہ مسلمان نہیں بنایا گیا۔ بادشاہ اکبر نے اپنے محل میں لارڈ کرشنا کا مندر تعمیر کیا تھا اور عوام آج بھی مندر کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوؤں کے بھگوان رام اور کرشنا دراصل ایک ناول کے کردار ہیں اور یہ کوئی تاریخی شخصیتیں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اشوک سمراٹ ملک کی تاریخی شخصیتوں میں شامل تھے۔ اتراکھنڈ میں شیو لنگ پر بدھا کی تصاویر شامل کی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں بدھا کے ماننے والوں نے عدالت میں درخواست دائر کی ہے۔ ریٹائرڈ جج کا کہنا ہے کہ ملک میں مندروں کو مساجد میں تبدیل کرنے کا الزام ہے لیکن بادشاہ اشوک نے مندروں سے قبل 84 ہزار بدھا وہار تعمیر کئے تھے اور آج ان کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ بدھا کے ماننے والوں کی جانب سے اسے ایک مسئلہ بنایا جاسکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ریٹائرڈ جج کا کہنا ہے کہ دستور ہند کے مقاصد انتہائی واضح ہیں۔ بعض گوشوں کی جانب سے شبہات پیدا کئے گئے اور حکومتیں دستور کے مقاصد کو پورا کرنے میں ناکام ہوئی ہیں۔ نئی نسل کو چاہئے کہ وہ چوکس اور متحرک رہیں تاکہ دستور سے کوئی انحراف نہ کرسکے۔ 1999 ء میں قانون سازی کرکے مساجد ، چرچس اورمندروں کا تحفظ کیا گیا اور ان کی حقیقی حالت کو برقرار رکھنے کی گنجائش فراہم کی گئی۔ باوجود اس کے ضلع کورٹ نے متضاد فیصلہ سنایا ہے۔ ریٹائرڈ جج نے کہا کہ ہمیں ماضی میں گئے بغیر موجودہ صورتحال کے مطابق کام کرنا چاہئے اور اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانی چاہئے ۔ ایک اور ریٹائرڈ جج اے ناگراج کا کہنا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کو حلفنامہ داخل کرنا چاہئے کہ وہ الیکشن جیتنے کے بعد پارٹی تبدیل نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں قانون سازی کی ضرورت ہے۔ آزادی سے قبل ملک میں حب الوطنی کو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی لیکن آج خودغرضی نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ ریٹائرڈ جج کے بیان کے بعد سوشیل میڈیا میں مختلف گوشوں سے مذمت کی جارہی ہے۔ بی جے پی اور دیگر تنظیموں کے قائدین نے مغل حکمرانی کی ستائش پر ریٹائرڈ جج کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ سوشیل میڈیا پر ریٹائرڈ جج کے بیان کے بعد مختلف تبصرے کئے جارہے ہیں جن میں زیادہ تر افراد نے مسلم حکمرانوں کی مذہبی رواداری کی تائید کی۔ر