مسلم دنیا کو مشترکہ قیادت کی ضرورت ہے

   

پروفیسر اخترالواسع
موجودہ دور تیز رفتار ترقی کا دور ہے ۔ اس دور میں ترقی کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ماضی میں شاید کبھی بھی نہ رہی ہو۔ پل پل ترقی پذیر اور بدلتی دنیا میں بقا کی جنگ بھی تیز تر ہوچکی ہے ۔ پلک جھپکنے کی دیری اور بس ذرا سی غفلت کسی بھی انسانی سماج کو برسوں پیچھے دھکیل دیتی ہے ۔ مسلم دنیا بھی تر قی کے پیچھے بھاگتی اور روزانہ کی بنیاد پر تغیر کے عمل سے گزرتی موجودہ عالمی نظام کا ایک حصہ ہے ۔ یہاں بھی ترقی اور تغیر کا عمل جاری ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس میں مسلمانوں کی متحرک شرکت کم اور حالات کے جبر کا عمل دخل زیادہ ہے۔ پوری دنیا امن کی تلاش میں سر پٹ بھاگی چلی جارہی ہے اور اس کیلئے بڑی سے بڑی قربانیاں نہ صرف دینے کیلئے تیار ہے بلکہ عملاً دے رہی ہے ۔ دو عالمی جنگوں کے اثرات مغربی دنیا کے عوام اور قیادت دونوں پر ایسے پڑے ہیں کہ انہوں نے مغرب میں آئندہ کوئی بھی جنگ نہ لڑنے کا گویا غیر تحریری معاہدہ کرلیا ہے ۔ دوسری طرف مسلم دنیا اور اس کی قیادت ہے جس نے گویا یہ قسم کھا رکھی ہے کہ امن کی فاختہ کو اپنے اردگرد بھی پھٹکنے نہیں دے گی ۔ خاص طور پر گہوارۂ اسلام کہلانے والا مغربی ایشیاء کا علاقہ ایک ایسی افتاد سے دوچار ہے جو کہیں باہر سے اس پر مسلط نہیں ہوئی بلکہ خود کی پیدا کردہ ہے ۔
مغربی ایشیاء کا علاقہ مسلم دنیا کا وہ خطہ ہے جو اپنی مخصوص جغرافیائی پوزیشن ، تاریخ ، مقامات مقدسہ اور مذہب اسلام کا اولین مرکز ہونے کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتا ہے ۔ یہاں وقوع پذیر ہونے والے چھوٹے اور معمولی واقعات و حادثات کا دنیا بھر کے مسلم سماجوں پر گہرا اثر پڑتا ہے ۔ بعثت نبویؐ کے بعد سے ہی مسلمانوں کی قیادت و سیادت مستقل طور پر اسی علاقہ میں رہی ہے ۔ گو یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی زیادہ بڑی تعداد اس خطے سے باہر ہی رہتی ہے لیکن قرن اول کی مدنی ریاست سے لے کر ماصی قریب میں خلافت عثمانیہ کے انہدام تک مسلمانوں کی قیادت و سیادت کی تمام علامتیں اور نشانیاں اسی خطہ میں واقع ہے ۔ مدینہ ، کوفہ ، دمشق ، بغداد ، قاہرہ اور استنبول ماضی کے وہ مراکز ہیں جہاں سے مسلمانوں نے دنیا پر حکمرانی ہی نہیں کی ہے ، مشکل حالات میں رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب عصر حاضر کے ایک مفکر نے مسلم دنیا کی زبوں حالی کا مداوا کرنا چاہا تو اسے مشورہ دیا کہ اس کی بیماری کا علاج جنیوا ، لندن اور پیرس میں نہیں بلکہ اس کیلئے اسے کوفہ و بغداد جیسے مراکز کی ایک بار پھر بازیافت کرنی ہوگی۔
دور جدید کو قومی ریاستو ںکے عہد سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ بلا شبہ موجودہ عالمی نظام انہیں قومی ریاستوں کے ارد گرد گھومتا ہے ۔ البتہ قومیت اور قومی ریاستوں کے اس تصور نے انسانیت کو بری طرح تقسیم بھی کیا ہے ۔ انسانیت کی مشترکہ میراث قومیت کی تھالیوں میں تقسیم ہورہی ہے ۔ کوئی نہیں جو انسانیت کی فکر کرتا ہو ، جسے دیکھو وہ اپنے قومی مفادات کی غلامی کرتا نظر آتا ہے ۔ بیسویں صدی کی مسلم دنیا بھی قومیت اور قومی ریاستوں کے اس تصور سے اچھوتی نہیں رہی اور آج پوری مسلم دنیا قومی ریاستوں میں تقسیم ہے ۔ حالات جس طرح کے ہیں اس میں آج کی مسلم د نیا سے یہ مطالبہ تو نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اتحاد اسلامی کی لڑائی میں پروکر ایک ہوجائے لیکن ایسی دنیا میں جہاں قومیتوں کی تقسیم کے باوجود مختلف علاقائی ، سیاسی ، اقتصادی و دیگر اتحاد نہ صرف قائم ہورہے ہیں کیوں نہ اس میں ایک ایسے اسلامی اتحاد کی بات کی جائے گی جس میں قیادت انفرادی نہ ہوکر اجتماعی ہو۔
حالیہ کچھ دنوں کے دوران مغربی ایشیاء کے حالات میں بعض ناخوش گوار حادثات کے بعد سیاسی بحران کے جو آثار نظر آرہے ہیں ، وہ کسی بھی بینا آنکھ سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ خطے کے تین اہم اور قائدانہ رول کے حامل ممالک (میری مراد سعودی عرب ، ترکی اور ایران سے ہے ) جس طرح سیاسی کشمکش میں الجھتے نظر آرہ ہیں ، وہ مسلم دنیا کو جو پہلے متعدد بحرانوں سے دوچار ہے ۔ ایک نئے سیاسی بحران کی طرف لے جاسکتی ہے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ خطے کے یہ تینوں ملک مختلف حیثیتوں میں مسلم دنیا کی قیادت و سیادت کا دعویٰ کرنے کے اپنے عزائم میں بڑی حد تک حق بجانب ہوسکتے ہیں، البتہ اس کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے درمیان کسی بھی طرح کا ٹکراؤ اور تصادم ان ملکوں کے علاوہ پوری مسلم دنیا کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ مغربی ایشیا کی سطح پر یہ تینوں ملک اس حیثیت میں کہ ان پر کوئی بھی فیصلہ ، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی فورم ، ملک ، ادارے یا شخصیت کی جانب سے آئے ۔ اوپر سے تھوپا نہیں جاسکتا (مسلط نہیں کیا جاسکتا) ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی امر واقعی ہے کہ فی الحال تینوں ہی ملکوں میں جہاں دیدہ ور اپنے اپنے ملکوں کی کامیاب ترین قیادت موجود ہے جس کا اظہار مختلف مواقع پر ان کی جانب سے ہوتا بھی رہا ہے ۔ توقع کی جانی چاہئے کہ مغربی ایشیاء کے بدلتے اور بگڑتے ہوئے سیاسی حالات میں ان کی مشترکہ اور اجتماعی دانش نہ صرف یہ کہ حالات پر آسانی سے قابو پالے گی بلکہ اسلحے کے عالمی سودا گروں کے منصوبوں پر بھی پانی پھیر دے گی ۔ خطے کی ان دور اندیش اور تجربہ کار قیادتوں سے یہ بھی امید کی جانی چاہئے کہ وہ نئے حوصلہ مندوں کی سیاسی تربیت تو کریں لیکن اختیارات پورے طور پر ان کے ہاتھوں میں سپرد کر کے نہ ہی چین کی بنسی بجائیں اور نہ انہیں اور نہ خود کو دوسروں کے ہاتھوں میں مہرہ بننے دیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ جس طرح ان لوگوں نے اپنے اپنے ملکوں کی سطح پر سیاست میں دوسروں کو جگہ دیتے ہوئے اپنے لئے ایک مقام پیدا کیا ہے اسی طرح خطے کی سطح پر مسلم دنیا کو قیادت فراہم کرنے کیلئے یہ تینوں (اردو گان ، سلمان اور روحانی) ایک دوسرے سے قریب آئیں اور مشترکہ فراست سے مشترکہ قیادت کی جانب بڑھیں۔