مسلم معاشرہ ذہنی سکون سے محروم صلہ رحمی اور خونی رشتوں کااحترام ناگزیر

   

محبت مختلف اسباب کی بناء ہوتی ہے ، کبھی حسن و جمال کی وجہ سے کوئی کسی پر فریفتہ ہوتا ہے ، کوئی علم و حکمت کی وجہ سے کسی پر شیدا ہوتا ہے ،کوئی مال و دولت ، احسان و حاجت روائی کی وجہ سے کسی کو چاہنے لگتا ہے ، لیکن دنیا میں بعض ایسی محبتیں ہیں جس میں سبب ، علت ، معیار، یا کسی وجہ کا کوئی سوال ہی نہیں رہتا ، وہ فطری محبت کہلاتی ہے اولاد کس قدر کالی کلوٹی ، بدشکل کیوں نہ ہو ، مانباپ کو ساری دنیا کے بچوں سے پیاری ہوتی ہے۔مانباپ کس قدر غریب ، ضرورتمند ، کمزور ، معذور، اپاہج، لاچار یا عیب دار کیوں نہ ہوں اولاد کے لئے سب سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ یہ وہ محبت ہے جو نہ عقل سے تولی جاسکتی ہے اور نہ کسی وجہ سے نکالی جاسکتی ہے ۔ یہ محبت ، درحقیقت خدا کی قدرت کی نشانی ہے۔ مانباپ ، بھائی بہنوں اور اولاد میں کبھی اختلافات ہوجاتے ہیں لیکن خون کا ایسا رشتہ ہوتا ہے کہ پھر وہ ساری تلخیاں ختم کردیتے ہیں اور خوشی و غم کے موقعہ پر ایک ہوجاتے ہیں ۔
افسوس کہ آج مسلم معاشرہ ذہنی یکسوئی اور قلبی سرور و راحت سے محروم ہے ۔ میاں بیوی کے درمیان ناچاتی ، مانباپ کی نافرمانی ، اولاد کی ایذاء رسانی ، بھائی بھائی میں اختلاف ، سسرال والوں سے ناراضگی ، چھوٹی چھوٹی ، لایعنی باتوں کو نظرانداز کرنے کی بجائے اہمیت دینی کی وجہ سے قابل حل مسائل بھی پیچیدہ ہورہے ہیں۔ بسا اوقات نوبت قطع تعلق ، گالی گلوج ، مارپیٹ سے بڑھکر قتل و خون تک پہنچ رہی ہے ۔

خونی رشتوں کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے ، صلہ رحمی کرنا افضل ترین تقربات میں سے ہے اور قطع رحمی ، عزیز و اقارب سے تعلق کو ختم کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ قرآن مجید میں کتنے ہی مقامات پر مانباپ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کے ساتھ قریبی رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : یاد کیجئے اس وقت کو جب اﷲ تعالیـ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ تم اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا ، والدین ، قریبی رشتہ دار ، یتیم اور مساکین کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور لوگوں سے اچھی گفتگو کرنا ، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا پھر تم ( اس عہد سے ) پھر گئے سوائے چند کے تم تو منھ موڑنے والے ہی ہو ۔ ( البقرۃ ۲،۸۳)
’’یہ نیکی نہیں کہ تم اپنا رُخ مشرق یا مغرب کی جانب کیا کرو بلکہ نیکی یہ ہے کہ جو ایمان لایا اﷲ پر آخرت کے دن پر ، فرشتوں پر ، کتاب پر ، انبیاء پر اور اپنی محبت و ضرورت کے باوجود رشتہ دار ، مسکین ، مسافر اور مانگنے والوں کو مال دیا ، نماز قائم کیا ، زکوٰۃ دیا ، اپنے عہد کے پورا کرنے والے جب وہ عہد کریں ، سختی اور تکلیف میں صبر کرنے والے اور لڑائی کے وقت یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں‘‘۔

(سورۃ البقرۃ ۲،۱۷۷)
’’وہ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا خرچ کریں آپ فرمادیجئے جو کچھ تم خرچ کروگے مال میں سے سو مانباپ کے لئے ، قریبی رشتہ داروں کے لئے ، یتیموں ، مساکین اور مسافرین کے لئے اور جو کچھ بھلائی تم کروگے بے شک اﷲ سبحانہ و تعالیٰ اس کو خوب جاننے والا ہے‘‘ ۔
(سورۃ البقرۃ ۲،۲۱۵)
سورۃ الانفال میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ مہاجرین اور انصار کے درمیان رشتہ ایمانی کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے (اے انصار ، مہاجرین تم ہی میں سے ہیں ) مہاجرین پر خرچ کرنے ، ان کی ہرممکنہ مد کرنے کی تلقین کے فوری بعد قاعدہ کلیہ بیان کردیا ۔ رشتہ دار آپس میں اﷲ تعالیٰ کی کتاب میں زیادہ حقدار ہیں ۔ ( سورۃ الانفال ۸،۷۵)

سورۃ النساء ، ۴؍۳۶ میں ارشاد ہے : ’’اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور مانباپ کے ساتھ نیکی کرو ، قرابت دار ، یتیم ، فقراء ہمسایہ رشتہ دار ، ہمسایہ اجنبی اور پاس بیٹھنے والے ، مسافرین اور غلام باندیوں کے ساتھ حسن سلوک کرو ‘‘ ۔
بالخصوص والدین کا مقام اس قدر بلند کیا گیا کہ ان کے تئیں ادنیٰ سی بے التفاتی ، اکتاہٹ یاناپسندیدگی کو گوارا نہیں کیا گیا اور حکم ہوا کہ تم والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو ، وہ دونوں یا ان میں کوئی تمہارے پاس بوڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو ’’اُف‘‘ تک نہ کہو اور نہ ان کو جھڑکو ، ان سے ادب سے بات کرو ، ان کے آگے نیازمندی سے کندھے جھکادیں اور دعا کریں کہ اے رب ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے بچپن میں مجھے پالا … اور تم اپنے قرابت دار کا حق ادا کرو ‘‘۔ ( سورۃ بنی اسرائیل ۱۷؍۲۵؍۲۶)
’’جو لوگ رشتہ داروں سے قطع تعلق کرتے ہیں ان پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے‘‘ ۔ ( سورۃ محمد ؍ ۲۳)
’’اور جو اﷲ تعالیٰ کا عھد توڑتے ہیں اور رشتہ داروں سے تعلق کو توڑتے ہیں ان کے لئے برا ٹھکانہ ہے ‘‘۔ ( سورۃ الرعد :۲۵) حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : رشتہ داری عرش کو تھامے ہوئے عرض کرتی ہے : اے پروردگار تو اس کو جوڑ دے جو مجھ کو جوڑے اور جو مجھ کو توڑے تو اس سے قطع تعلق فرما ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : میں رحمن ہوں ، رحیم ہوں ، میں نے ’’رحم ‘‘ (رشتہ داری ) کو میرے نام سے مشتق کیا ہے جو اس کو جوڑے گا میں اس کو جوڑ لونگا اور جو اس کو توڑے گا اس کو میں جدا کردوں گا ۔(بخاری )
حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا جو اﷲ پر اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے اور جو اﷲ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو اور جو اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو چاہئے کہ وہ بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے ۔ ( مسلم )

آپ ﷺ نے فرمایا تین لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے جن میں سے ایک رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا ہوگا ۔ ( مسند امام احمد بن حنبل ) حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ کو ہجرت فرماکر تشریف لائے تو سب سے پہلے یہ کلمات سنے ’’اے لوگو ! سلام کو عام کرو ، کھانا کھلاؤ ، صلہ رحمی کرو ، رات کو نماز پڑھو جبکہ لوگ سورہے ہوں ، تم جنت میں سلامتی سے داخل ہوجاؤ گے ‘‘۔ ( ابن ماجہ )
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جس شخص کو یہ بات خوش کرتی ہو کہ اس کے رزق میں کشائش ہو اور اس کی عمر میں اضافہ ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرے۔ ( بخاری ، مسلم )
حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا شب جمعہ بنی آدم کے اعمال پیش ہوتے ہیں رشتہ داروں سے قطع تعلق رکھنے والے کے اعمال قبول نہیں کئے جاتے۔ (مسند احمد)