مسلم ملکوں کی برہمی ہندوستانی مسلمانوں کیلئے کہیں نقصان دہ تو نہیں ؟

   

پروفیسر اپوروآنند
مسلم ملکوں نے جیسے ہی بی جے پی کے دو قائدین کی جانب سے پیغمبر اسلامؐ کے خلاف کئے گئے توہین آمیز ریمارکس کی مذمت شروع کی، ایک دوست کی ماں نے ریمارک کیا: ’’ہم نے دیکھا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر کانپور میں کیا ہوا‘‘۔
ہر حملے کے بعد جیسا کہ ہم نے محسوس کیا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی عوامی سطح پر تذلیل کی سب سے بڑی شکل کو معمول بنا لیا جائے گا یعنی ہندوستانی مسلمانوں کی تذلیل معمول کی بات ہوجائے گی۔
میں نے اللہ عزوجل سے دُعا کی کہ وہ ہماری مدد فرمائے اور اس کے رسولؐ کی ناموس کو برقرار رکھے۔ اللہ نے ان لوگوں کو ذلیل کیا ہے جو ہمیں روزانہ ذلیل کیا کرتے ہیں۔ جب غیرملکی حکومتوں نے احتجاج کیا اور ان حکومتوں کی جانب سے ٹوئٹس اور مذمتی بیانات کا سلسلہ شروع ہوا تو مجھے ابابیل کے ایک غول کی کہانی یاد آگئی جو جنگلی ہاتھیوں کی فوج کے خلاف خانہ کعبہ کا دفاع کررہے تھے۔
مسلمان یہ کہانی جانتے ہیں جب بادشاہ ابرہہ نے خانہ کعبہ پر اپنا آخری حملہ کیا تو اللہ نے تیزی سے پرندوں کا ایک غول بھیجا، وہ اپنی چونچوں اور پنجوں میں کنکریاں لے کر اس کی فوج پر اُڑنے لگے اور اُن پرندوں نے ابرہہ کے لشکر پر اتنی شدت اور تیزی سے کنکر پھینکنا شروع کیا کہ وہ آگے نہ بڑھ سکا۔ اس طرح خانہ کعبہ کا دفاع کیا گیا۔
میرے دوست کی والدہ اس خیال کا اظہار کررہی تھیں کہ ہندوستان کے مسلمان اس وقت یہی محسوس کررہے ہوں گے، ان کا یہی خیال ہوگا کہ ہندوستانی مسلمانوں کیلئے قدرت کی غیبی مدد آگئی ہے، لیکن ان جذبات کے برعکس علاقہ خلیج میں بی جے پی کے ’’اسلاموفوبیا‘‘ پر عوامی ردعمل نے ہندوستان کے کچھ آزاد خیال حلقوں میں بے چینی پیدا کردی ہے، وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ’’بیرونی مداخلت‘‘ اکثریتی سیاست کے خلاف جاری لڑائی کو فائدہ سے زیادہ نقصان پہنچائے گی۔ان کے یہاں خوف زدہ ہونے کی دو وجوہات ہیں۔ ہندوستانی ٹی وی چیانلس پر اسلام کے خلاف تبصروں پر احتجاج کرنے والے ممالک سوائے انڈونیشیا ، رسمی طور پر بھی سکیولر نہیں ہیں۔ ہم انسانی حقوق کی بات کریں تو ان کا ریکارڈ بھی شاندار نہیں ہے (یہ بات ضرورہے کہ ان ملکوں میں لاکھوں غیرمسلم خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن کسی کے ساتھ مذہبی امتیاز نہیں برتا جاتا) لہٰذا ان مسائل پر ان کی کوئی بھی نصیحت معتبر نہیں۔ اصل میں یہ ایک دوسری صورت میں مضبوط کیس کو کمزور کرسکتا ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ عالمی سطح کا اسلامی ردعمل ٹھیک نہیں ہے ، اس سے ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل مزید بڑھ جائیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے ردعمل سے مسلمانوں کے بارے میں ہندوتوا کے نظریہ کو تقویت ملتی ہے کہ ان کی غیرعلاقائی وابستگی ہے (ہندوتوا کی اکثر تنظیمیں ، مسلمانوں پر یہی الزام عائد کرتی ہیں کہ وہ مذہب کے نام پر غیرعلاقائی وفاداری رکھتے ہیں)۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی قوم پرستی، ان عناصر کی نظر میں ہمیشہ شک و شبہ کے دائرہ میں رہی ہے۔ عالم اسلام کے ردعمل کے بعد یہ مزید متاثر ہوگی اور خراب ہوجائے گی، لہٰذا اگر اسلامی ممالک ہندوستانی مسلمانوں کے خیرخواہ ہیں تو وہ اپنا منہ نہ کھول کر ان کے مقاصد کی بہتر خدمت کریں اور ہندوتوا وادیوں کو اس عالم اسلام کے خطرہ کو ظاہر کرکے اپنے حلقوں میں خوف پیدا کرنے کی کوئی جگہ نہیں دیں گے، اس لئے کہ عالمی سطح پر جو ردعمل سامنے آرہا ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں اس سے ناجائز فائدہ اُٹھاکر اپنے حلقوں میں یہ پروپگنڈہ کریں گی کہ دیکھو ہندوستانی مسلمانوں کیلئے اسلامی ملک سامنے آرہے ہیں اس سے وہ ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق مزید شکوک و شبہات پیدا کریں گی اور اپنے مفادات کی تکمیل کرلیں گی۔ اگر دیکھا جائے تو یہ انتباہ حقیقی خوف کا نتیجہ ہے، اس بات کا بھی خوف ہے کہ مزید ہندو ہندوتوا وادیوں کی فوج میں شامل ہوسکتے ہیں کیونکہ انہیں اسلامی ملکوں کی برہمی کے بہانے اُکسایا جائے گا جس سے عام ہندوؤں میں بھی مسلمانوں کے خلاف تعصب کا جذبہ پیدا ہوگا۔ موجودہ حالات میں اسلامی ملک جس انداز میں برہمی کا اظہار کررہے ہیں، اس پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی برہمی ملک میں ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اسلاموفوبیا کی آئیڈیالوجی کے بارے میں ہے جسے ایک سیاسی جماعت نے پروپگنڈہ کے ذریعہ پھیلایا، اسے بڑھاوا دیا ہے جو بدقسمتی سے ہندوستان جیسے بڑے ملک پر حکومت کرتی ہے۔ ہندوستان وہ ملک ہے جو اپنے لاکھوں ورکرس کو مسلم ممالک روانہ کرتا ہے جہاں ہندوستانی تارکین وطن ورکر اپنی محنت کے ذریعہ ان ملکوں کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان مسلم ملکوں نے ابھی تک ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت ِ زار پر ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ اگر انہوں نے ایسا کیا ہوتا تو اس کی دلیل اس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کو اپنا سمجھتے ہیں اور اپنی طرف سے ان کے حق میں آواز اُٹھا رہے ہیں۔ باالفاظ دیگر ان کے ایسا کرنے سے یہ ہندوستان کے داخلی اُمور میں مداخلت کے مترادف ہوگا۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ حکمراں جماعت کے لیڈرس اور گودی میڈیا کے اینکرس کی جانب سے قومی ٹی وی چیانلوں پر مخالف اسلام جذبات کے کھلم کھلا اظہار کے بعد مسلم ملکوں نے ابھی اپنا منہ کھولا ہے۔ یہ ٹی وی چیانلس دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے قدموں کے نشان ہندوستان کی قومی سرحدوں میں باہر تک پھیلا ہوا ہے (یعنی ان ٹی وی چیانلوں کی رسائی مسلم ملکوں تک بھی ہے) اور انہیں مسلم ملکوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے بارے میںکوئی بھی رائے یا اوپینین گھریلو مسئلہ نہیں رہتا، یہ ایسے ٹی وی چیانلس ہیں جو فیس بک، ٹوئٹر ، اور سوشیل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمس پر بھی اپنے پروگرامس پیش کرتے ہیں لہٰذا ایسے کوئی بھی پروگرام میں قرآن پاک اور پیغمبر اسلام ؐپر بحث کی جاتی ہے، اسے پوری آگاہی کے ساتھ نشر کیا جاتا ہے کہ اس کے ناظرین میں ان ملکوں (مسلم ملکوں) کے مسلمان بھی شامل ہوں گے۔ اگر دیکھا جائے تو مخالف مسلم بیان بازی میں کچھ بھی الگ نہیں ہے۔ بی جے پی قائدین کی جانب سے جب مسلمانوں یا اسلام جیسے موضوع پر بات کی جاتی ہے تو جس طرح سے فحش زبان کا استعمال کیا جاتا ہے، وہ آپ کو بتاتا ہے کہ ایسا کرنے والوں کو معافی کی یقین دہانی کروادی گئی ہے، کیونکہ اس طرح کے بے شمار واقعات ہمارے سامنے ہیں جن میں ملزمین کو فوری رہا کروایا گیا، ان کی رہائی پر خوشیاں منائی گئیں، ان کی گلپوشی کی گئی۔ واضح طور پر انہیں سیاسی قیادت نے بااختیار بنایا ہے جو آج ہندوستان پر حکومت کررہی ہے۔ ان کا ہدف صرف ہندوستانی مسلمان نہیں ہیں بلکہ ان کی نفرت خود اسلام کے خلاف ہے اور ان ملکوں کیلئے جو مسلم ملک نہیں یا مسلم اکثریتی ملک ہیں جہاں کثیر تعداد میں ہندوستانی کام کرتے ہیں، خاص طور پر ہندو برسرخدمت ہے، وہاں ان کی نفرت کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، کیونکہ ہمارے ملک کے تارکین وطن نہ صرف ان ملکوں میں کام کرتے ہیں بلکہ وہ وہاں کا ایک اہم حصہ بن چکے ہیں۔
اگر ہندوستان سے ’’اسلاموفوبیا‘‘ کے پیامات مسلم ملکوں میں نشر ہوتے ہیں تو کیا اس سے ان ملکوں میں ہندوستانی باشندوں کی اجتماعی زندگی متاثر نہیں ہوگی؟ یہاں تک کہ اگر ہم اس پہلو کو نظرانداز کردیتے ہیں تو ہندوستان سے باہر کے مسلم ناظرین جو مخالف اسلام نفرت کے اس مکروہ مظاہرہ کو دیکھتے ہیں ، یقینا یہ سوچیں گے کہ کیا ہندوستان اب اسلامو فوبیا کی افزائش گاہ بن گیا ہے۔ جہاں اسلامو فوبیا کو بڑے اہتمام سے پروان چڑھایا جارہا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ جج بھی اس رویے کو قابل برداشت سمجھتے ہیں اور ہم سے اس سیاق و سباق کی تعریف کرنے کو کہتے ہیں جس میں وہ بولے جاتے ہیں۔ اس طرح بی جے پی کے ایک وزیر کا ’’غداروں کو گولی مارنے‘‘ کی کال یا اپیل ان کا انتخابی حامیوں کو جمع کرنے کا طریقہ تھا۔ حالیہ عرصہ کے دوران ایک عدالت کے مشاہدہ کے مطابق یہ صرف تقریر کا آلہ تھا، اور اس کا مطلب حقیقت میں گولی مارنے کا نہیں تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلام ، مسلمانوں اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف بکواس پر سوائے دوچار کے اکثر بڑی سیاسی جماعتوں اور اس کے اعلیٰ قائدین نے یہ ضروری نہیں سمجھا کہ اس کی مذمت کی جائے جیسا کہ علی شان جعفری نے ٹوئٹ کیا ہے کہ بی جے پی لیڈروں نے جو توہین آمیز تبصرے کئے، ہندوستانی مسلمانوں کو ذلیل کیا، ان کے عقیدہ کو نشانہ بنایا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے صرف اپنے الفاظ کے ذریعہ ہی نہیں بلکہ ان کی Body Language ، اُن کے چہروں پر آنے جانے والے تاثرات سب کے سب مسلمانوں سے سخت نفرت کا پتہ دیتے ہیں۔ اب کیا اس بات میں کوئی حیرت ہونی چاہئے کہ بیرونی ملکوں کے مسلمان جو یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ اس طرح کی گندی بکواس اور زہریلے تبصروں پر برہمی کے عالم میں شدید ردعمل کا اظہار نہیں کریں گے؟ ایسا کیوں ہے کہ نپور شرما کے تبصروں پر بات کرنے کیلئے ایک مسلم صحافی بننا پڑا؟ ایسا کیوں ہے کہ اس خطرناک اسلامو فوبیا کا مشاہدہ ریکارڈنگ اور دستاویزی شکل میں ڈھالنے کا بوجھ بنیادی طور پر مسلمانوں کے کمزور کندھوں پر پڑتا ہے؟ اس نفرت انگیز مہم کے خلاف صرف مسلمانوں نے ہی مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اور جب انہوں نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو انہیں ریاست کی طرف سے سخت ظلم کا سامنا کرنا پڑا، اس کا بھی ایک پس منظر ہے، کیا کوئی پوچھ سکتا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون نے بھی ہماری سکیولر جماعتوں کو احتجاج پر کیوں نہیں اُبھارا۔