مسلم ملکوں کی خاموشی یا بے حسی

   

کشمیر میں ظلم جاری

ہندوستانی مسلم قیادت پر غشی طاری

عرفان جابری

دُنیا میں سوائے انڈونیشیا، کوئی مسلم ملک نہیں جس کی آبادی ہندوستان میں مسلم شہریوں سے زیادہ ہے۔ مگر حیرانی کی بات ہے کہ اس وقت کشمیر میں وہ مظالم ڈھائے جارہے ہیں جو فلسطین اور میانمار میں سننے اور دیکھنے میں آئے ہیں۔ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ سے متعلق دستوری آرٹیکل 370 کی دفعات کو منسوخ کرتے ہوئے حکومت ہند نے کشمیریوں کے ساتھ سراسر دھوکہ کیا ہے، ان سے کئے گئے میثاقِ الحاق کی خلاف ورزی کی ہے، ان کو دی گئی مراعات جبراً ختم کردی ہیں، جموں و کشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ چھین لیا ہے۔ اور اب سب سے زیادہ سنگین اور نہایت تشویش کی بات یہ ہے کہ مرکز نے 5 اگست کو ایک ساتھ ان تمام اقدامات کے بعد سے وادیٔ کشمیر میں کشمیریوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔ وہاں طرح طرح کے ظلم ڈھائے جارہے ہیں، مواصلات کی سہولتیں معطل کردی گئی ہیں جس کے سبب دیگر ریاستوں میں زیرتعلیم کشمیری اسٹوڈنٹس اپنوں سے رابطہ قائم نہیں کرپا رہے ہیں، تمام بڑے اور چھوٹے سیاستدانوں کو گرفتار یا نظربند کردیا گیا ہے، حتیٰ کہ رکن پارلیمنٹ فاروق عبداللہ (سرپرست نیشنل کانفرنس) کو جموں و کشمیر کے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے ان کی قیامگاہ کو ہی جیل بنا دیا گیا ہے۔ یہ ایسا ایکٹ ہے کہ اس کے تحت کسی بھی فرد کو چاہے وہ خاطی ہو یا نہ ہو، کم از کم چھ ماہ چارج شیٹ کے بغیر محروس رکھا جاسکتا ہے۔ بیرون کشمیر سے بعض سیاستدانوں اور کئی جہدکاروں نے موجودہ حالات میں وادیٔ کشمیر کا دورہ کیا۔ انھوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ لگ بھگ 50 دنوں میں 13 ہزار سے زیادہ بچے اور نوجوان غائب ہوچکے ہیں۔

مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ بار بار راگ الاپ رہے ہیں کہ کشمیر میں کوئی تحدیدات لاگو نہیں ہیں اور سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے یہ جملہ رٹ لیا ہے۔ جب بھی کشمیر میں پابندیوں کے تعلق سے یا وہاں کی زبوں حالی کے بارے میں کوئی سوال ہوتا ہے، وہ بس یہی کہہ دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں خود حکومت نے بیان دیا ہے کہ کشمیر میں دن کے اوقات میں عوام کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں لیکن رات کے اوقات میں کھلی آزادی نہیں ہے۔ اس طرح امیت شاہ ’نصف جھوٹے‘ تو ثابت ہوگئے۔ اب دن کے اوقات کا حال سنئے۔ 5 اگست سے کشمیریوں نے مرکز کے اقدامات کے خلاف عملاً ہڑتال کررکھی ہے۔ بازار سنسان پڑے ہیں کیونکہ کوئی کشمیری اپنی دکان کھولنے اور کاروبار کرنے کیلئے تیار نہیں، کوئی کشمیری اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے تیار نہیں۔ وہ برہم بھی ہیں اور سکیورٹی فورسیس کی بہتات سے خائف بھی ہیں۔ مرکز نے وہاں ہر قسم کی فورس بھر دی ہے؛ آرمی ہے، نیم فوجی دستے ہیں، ریاپڈ ایکشن فورس، سی آر پی ایف وغیرہ سب ہی گھسا دیئے گئے ہیں، یوں لگتا ہے کہ ہندوستان کشمیر کے محاذ پر جنگ کی حالت میں ہے۔ ایسے ماحول میں نہتے کشمیری لوگ اپنی خواتین، اپنے بچوں اور ضعیفوں کی سلامتی کے تعلق سے ضرور فکرمند ہوں گے۔ وہ گھر سے نکل کر دور نہیں جارہے ہیں۔ لیکن ایسا کب تک چلے گا۔ دو ماہ ہورہے ہیں، راشن جمع رکھا ہو تو بھی ختم ہوجائے گا۔ جانے ان کشمیریوں پر کیا بیت رہی ہے، انھیں کیوں یکایک ظلم کی چکی میں پیسا جارہا ہے، یہ آج کا سب سے بڑا سوال ہے۔ وجوہات بہت ہوسکتی ہیں، لیکن مجھے 1991ء سے نرسمہا راؤ حکومت کے دور میں اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے سفارتی تعلقات کا باضابطہ ہونا اور جنوری 1992ء میں تل ابیب میں انڈین ایمبیسی کی کشادگی یاد ہے۔ تب سے ہند۔ اسرائیل روابط پھلتے پھولتے رہے، اور ہندوستانی مسلمانوں کے گردشی ایام بڑھتے گئے ہیں۔ خدا کرے، میرا اندیشہ غلط ثابت ہو، ماضی بعید میں چیچنیا، ماضی قریب میں میانمار وغیرہ کے بعد اب کشمیر میں اسرائیلی ’’تجربے‘‘ شروع کئے گئے ہیں، جو فلسطین میں پہلے سے جاری ہیں۔
ہندوستانی سیاست میں ماضی قریب کا جائزہ لیں تو وزیراعظم مودی کے اقتدار میں بانی پی ڈی پی مفتی محمد سعید (مرحوم) نے جموں و کشمیر کی ایک بار اور وزارتِ اعلیٰ کی چاہ میں تاریخی غلطی کی اور بی جے پی سے ہاتھ ملا کر مخلوط حکومت تشکیل دی۔ کشمیری حکومت میں بی جے پی کی حصہ داری! یہ زعفرانی پارٹی نے شاید خواب میں تک سوچا نہیں تھا ہوگا لیکن مفتی سعید نے اسے حقیقت بنا ڈالا، حالانکہ انھیں این سی (نیشنل کانفرنس) اور کانگریس غیرمشروط تائید کی پیشکش کرتے رہے۔ آخرکار مفتی سعید کو مودی اور بی جے پی ہی بڑے بھلے معلوم ہوئے۔ جیسے ہی سرکاری گوشوں میں بی جے پی کا داخلہ ہوا، میرے خیال میں کشمیریوں کے پیروں تلے سے زمین کھینچنے کی تدبیریں تبھی سے شروع ہوگئیں۔ قدرت نے کشمیریوں کو ایک موقع اور دیا تھا جب مفتی سعید کا انتقال ہوا۔ تاہم، ایک ماہ تک پس و پیش کے بعد ان کی بیٹی محبوبہ مفتی نے اپنے والد کی تاریخی غلطی دہرائی۔ دوبارہ پی ڈی پی۔ بی جے پی مخلوط حکومت کام کرنے لگی اور مرکزی اقتدار کشمیر کے خلاف اپنے کام میں جٹ گیا۔ جب مودی ، امیت شاہ، آر ایس ایس نے پوری تیاری کرلی تو یکایک محبوبہ مفتی کی چیف منسٹری ختم کردی اور گورنر کے ذریعے سرحدی ریاست میں صدر راج نافذ کرا دیا گیا۔
’’اپنوںنے جفا کی‘‘ کے مصداق مسلم ممالک بالخصوص خلیجی مملکتوں نے برسوںسے مودی حکمرانی میں ماب لنچنگ کے بعد اب کشمیر میں ظلم و ستم پر نہایت سردمہری کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ صرف آرٹیکل 370 کی تنسیخ کو دیکھتے رہے کہ یہ تو کسی بھی ملک کا داخلی معاملہ ہوسکتا ہے، لیکن اس کی آڑ میں کشمیریوں پر کیا کیا بیت رہی ہے، دولت مند مسلم اقوام نے وہ جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ یا اگر جان بھی گئے ہیں تو خاموش ہیں جس کو بے حسی نہیں تو اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر بے حسی اور کیا ہوگی کہ عرب ممالک نے وزیراعظم مودی کو اپنے ملک کے مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کرنے پر اعزازات سے نوازا ہے۔ انھیں اس میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوئی۔ ایک طرف امریکہ اور مغربی ممالک ان کی مرضی کے خلاف نیوکلیر اسلحہ بنانے کی کوشش پر ایران کے خلاف معاشی تحدیدات عائد کردیتے ہیں، تو دوسری طرف سعودی عرب کو یہ خوشی ہے کہ انڈیا اب ایران کے بجائے ان سے تیل خریدے گا۔ تاریخ ایسے مسلم حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی!

مسلم ملکوں کا معاملہ بیرونی مدد کا ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ خود ہندوستان میں مسلم قیادت کیا کررہی ہے؟ کیا انھیں ملک میں عمومی طور پر مسلمانوں کے حالات اور خصوصی طور پر کشمیریوں کی صورتحال سے واقفیت نہیں ہے؟ آخر کیوں وہ خود اپنی برادری کے حالات پر خاموش ہیں اور ان پر بے عملی کی غشی چھائی ہوئی ہے۔ آج ملک میں جتنے منتخب مسلم نمائندے ہیں، چاہے ایم پی ہوں کہ ایم ایل اے، چند کے سواء سب کروڑپتی دولتمند ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس ارب پتی بننے کے سواء کوئی اور مقصد نہیں ہے۔ یعنی محض دولت کے نشہ میں چور ہیں اور یہی دولت کی غشی ان پر طاری ہے۔ بھلا ’’غشی‘‘ میں کسی ایم پی صاحب کو عام مسلمان کہاں دکھائی دے گا، مظلوم کشمیریوںکے بارے میں وہ کیوں سوچیں گے؟ بابری مسجد شہید کرنے کے خلاف اُس وقت کے کانگریس ایم پی سنیل دت نے احتجاجاً استعفا دیا تھا۔ تب بھی کسی مسلم لیڈر کا ضمیر نہیں جاگا تھا۔ ایسے حالات میں باضمیر عام فرد جو کرسکتا ہے، وہ ابتدائی طور پر ایک جمہوری طریقہ ہے۔ ہر مسلمان اپنے متعلقہ ایم ایل اے، ایم پی، چیف منسٹر، گورنر، مرکزی وزیر داخلہ، وزیراعظم، نائب صدر، صدرجمہوریہ … جس جس کو ممکن ہو، پوسٹ کارڈ ؍ خط وقفے وقفے سے بھیجنا شروع کردے۔ مختصر الفاظ میں بھی اپنے احساسات کو ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً :

STOP CRUELTY IN KASHMIR
RESTORE NORMAL LIFE IN KASHMIR
اس طریقے پر ہمارے منتخب نمائندوں کا جس طرح ’’ردعمل‘‘ ہوگا، آگے اُسی کے مطابق عوام کو اپنی حکمت عملی طے کرنا ہوگا۔ جو بھی مسلم لیڈر ملک کے مسلمانوں اور کشمیریوں کے حق میں آواز نہ اٹھائے، اُسے اگلے الیکشن میں مسلم ووٹرس اپنا فرض سمجھ کر مسترد کردیں تو بہتر رہے گا۔ اگلا نمبر دولت کے نشہ میں ’’سست‘‘ لیڈروں کا ہونا چاہئے جن کا اپنے محل میں آرام کرنا ہی عام مسلمانوں کی صحت کیلئے اچھا ہے۔ ایوانوں کیلئے جوان خون اور ادھیڑ عمر کے باضمیر دانشمند کافی ہوجائیں گے۔
ہندوستان میں عمومی طور پر مسلمان مرعوب ہے، خوفزدہ ہے، سہما ہوا ہے، وہ اور اس کی دولت کے نشہ میں چور قیادت ظلم کے خلاف آواز اٹھانا بھول گئے ہیں، دنیا میں بلحاظ آبادی نمبر دو ملک (ہندوستان) میں آزادی کے بعد سے وہ بس ظلم سہے جارہے ہیں۔ یوں تو کوئی مذہب ظلم کرنے یا ظلم سہنے کی تعلیم نہیں دیتا، لیکن اسلام نے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ ظلم کرنا تو کیا، ظلم سہنا بھی ظلم ہے۔ بنیادی طور پر اسلام امن پسند مذہب ہے۔ مگر امن کا مطلب بزدلی نہیں۔ اسلام ترجیحی طور پر امن کی دعوت دیتا ہے، جب اسے کوئی کمزوری سمجھ لے اور اپنی شیطانی روش سے باز نہ آئے تو اس کے توڑ کیلئے ضرورت کے اعتبار سے مناسب جوابی طریقہ کار اختیار کرنا پڑتا ہے۔
ہندوستان 135 کروڑ آبادی والا جمہوریہ ہے۔ اس میں متعدد مذاہب کے ماننے والے ہیں۔ کئی زبانیں سرکاری سطح پر استعمال کی جاتی ہیں۔ شمال سے جنوب تک، مشرق سے مغرب تک ہمہ رنگی کلچر پایا جاتا ہے جو اپنے اپنے علاقے والوں کو بہت عزیز ہے۔ جمہوری نظام فطری طور پر بادشاہت سے کہیں بہتر ہوتا ہے۔ چنانچہ جمہوریۂ ہند میں جو دستور منظور کیا گیا وہ تمام ہندوستانی شہریوں کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے، سب کو مساوی مواقع عطا کرتا ہے، ملک کا کوئی سرکاری مذہب نہیں اور نا کسی خاص فرقہ، ثقافت، زبان اور علاقہ سے جانبداری برتی جائے گی۔ دستور ِ ہند 26 جنوری 1950ء سے نافذ ہوا لیکن میرے خیال میں خاص طور پر مسلمانوں کے حق میں دستورِ ہند پر کبھی بھی سیاہ و سفید کے مطابق من و عن عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ 15 اگست 1947ء کو آزادی کے بعد سے ابتدائی چند برس ملک کو سنبھلنے میں گزر گئے، اس کے بعد پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو کی قیادت میں برسہا برس کانگریس کی حکومتیں رہیں۔ ملک بھلے ہی ترقی کرتا رہا لیکن مسلمانوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی رہی۔ پھر غیرکانگریسی حکومتیں وقفے وقفے سے بننے لگیں، غیرکانگریسی وزرائے اعظم آئے مگر بس چہرے بدلتے رہے، تقاریر بدلتی رہیں، وعدے بدلتے رہے، وعدہ خلافی کے انداز بدلتے رہے۔ مسلمانوں کو سیاسی چالوں کے ذریعے بے وقوف بنانے کے طریقے بدلتے گئے۔ ملک میں مجموعی طور پر مسلمانوں کی حقیقت ِ حال سمجھنے کیلئے صرف یہ ایک مثال کافی ہے کہ آزاد ہندوستان میں کبھی سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب 12% ہوا کرتا تھا اور آج یہ ’ ’نزولی ترقی کرتے کرتے‘‘ 2% بھی نہیں ہے!٭