دو دن قبل بی جے پی اور آر ایس ایس کے قائدین کا ایک اجلاس دہلی میں منعقد ہوا جس میں اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا ۔ اجلاس میں کورونا وائرس اور اس کے اثرات کے نتیجہ میں بی جے پی اور حکومت کی شبیہہ پر ہونے والے اثرات پر غور کیا گیا اور یہ اندیشے ظاہر کئے گئے کہ ملک میں جاریہ بحران کا بی جے پی کی شبیہہ پر منفی اثر ہوگا اور حکومت کو نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ یہ در اصل ایک سازش ہوسکتی ہے تاکہ اترپردیش کے عوام کی توجہ مودی اور یوگی کی حکومتوں کی نااہلی اور ناکامیوں کو چھپایا جاسکے ۔ عوام کو حقیقی مسائل سے بھٹکاتے ہوئے ایک بار پھر ہندو ۔ مسلم جذباتیت کا شکار کرکے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جائے ۔ بی جے پی کے پاس ویسے بھی عوام کو دکھانے کیلئے کوئی کارنامہ نہیں ہے ۔ اترپردیش میں ویسے بھی گذشتہ چار سال سے جنگل راج چل رہا ہے ۔ آدتیہ ناتھ کی حکومت نے جتنا ممکن ہوسکتا ہے اترپردیش میں بدحالی بڑھائی ہے ۔ عوام کا کوئی پرسان حال گذشتہ چار سال میں بھی نہیں رہا اور کورونا بحران کے دوران تو کھلے عام عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا ۔ جس طرح سے یو پی میں اموات ہوئی ہیں ‘ لوگوں کو جو مسائل جھیلنے پڑے ہیں ‘ ایمبولنس سے لے کر آکسیجن تک کی قلت ‘ دواخانہ کے بسترس ے لے کر شمشان گھاٹ میں لکڑی کیلئے تک جو پریشانی ہوئی تھی اس نے آدتیہ ناتھ حکومت کی نا اہلی کو سارے ملک پر آشکار کردیا ہے ۔ اس صورتحال سے یقینی طور پر بی جے پی اور سنگھ پریوار پریشان ہے ۔ عوام میں جو غصہ اور ناراضگی پیدا ہوئی ہے وہ حکومت کیلئے مسائل پیدا کرسکتی ہے ۔ اترپردیش میں اقتدار سے دوری بی جے پی کیلئے مرکز میں اقتدار کو بچانے میں بھی مشکل پیدا کرسکتی ہے ۔ اسی لئے بی جے پی ایسا لگتا ہے کہ ایک سال پہلے ہی سے اترپردیش انتخابات پر توجہ مرکوز کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔ اسی لئے کورونا بحران کے باوجود یو پی انتخابات کی تیاریوں پر ملاقاتیں شروع ہوچکی ہیں۔
بی جے پی کی حکمت عملی رہی ہے کہ انتخابات سے قبل فرقہ وارانہ ماحول کو کشیدہ کرنے کیلئے ہر ممکن حربے اختیار کئے جاتے ہیں۔ گذشتہ یو پی اسمبلی انتخابات سے قبل مظفرنگر فسادات کو ہوا دی گئی ۔ بی جے پی کے کئی قائدین کے خلاف ان فسادات میں مقدمات درج کئے گئے تھے ۔ بعد میں آدتیہ ناتھ کی حکومت میں ان مقدمات سے دستبرداری اختیار کرلی گئی ۔ مظفرنگر فسادات سے ماحول کو پراگندہ کرتے ہوئے انتخابی تیاریاں شروع کی گئی تھیں اور ساری انتخابی مہم میں محض فرقہ وارانہ تقاریر کرتے ہوئے ماحول کو خراب کیا گیا ۔ خود وزیر اعظم نے بھی شمشان ۔ قبرستان جیسے ریمارکس کرتے ہوئے رائے دہندوں کو منقسم کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اب بھی اسی حکمت عملی کو اختیار کرنے کی تیاری کر رہی ہے ۔ حالانکہ یہی حکمت عملی مغربی بنگال میں ادا کی گئی تھی۔ ایک سال پہلے سے ماحول کو خراب کیا جاتا رہا تھا ۔ جئے شری رام کے نعرے کو ہوا دیتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اسے بنگال میں منہ کی کھانی پڑی ۔ وہاں بی جے پی کی کوئی فرقہ پرستی نہیں چل پائی ۔ اس کے تمام نعرے بے سود ثابت ہوگئے ۔ تمام حربے بے کار ہوگئے اور ممتابنرجی نے مسلسل تیسری معیاد کیلئے شاندار اکثریت کے ساتھ ریاست میں اقتدار حاصل کرلیا ہے ۔ اس کے باوجود بی جے پی ترقیاتی ایجنڈہ اختیار کرنے تیار نظر نہیں آتی ۔ بنگال سے بالکل جداگانہ ماحول والی ریاست یو پی میں دوبارہ فرقہ وارانہ جذبات کو مشتعل کیا جا رہا ہے ۔
حالات کو اپنے حق میں سازگار کرنے کیلئے ایسا لگتا ہے کہ ایک بار پھر سے مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنانا اور انہیں موت کے گھاٹ اتارنا شروع کردیا گیا ۔ پہلے ہریانہ میں ایک جم ٹرینر مسلم نوجوان کو ہجوم نے حملہ کرکے ہلاک کردیا ۔ پھر اترپردیش کے اعظم گڑھ ضلع میں ایک مسلم نوجوان کو پولیس تحویل میں ایذائیں دیتے ہوئے موت کے گھاٹ اتاردیا گیا ۔ سوشیل میڈیا پر یہ واقعات پیش کئے گئے جس کے بعد قومی سطح پر ان کا تذکرہ ہوا تھا ۔ اس طرح کے واقعات بی جے پی کی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کا حصہ ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی کا جو ٹریک ریکارڈ انتخابی ریاستوں میں رہا ہے اس سے یہ ان اندیشوں کو تقویت ملتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام اس فرقہ وارانہ ذہنیت کو سمجھیں اور اپنے ووٹ کے ذریعہ اسے مسترد کردیں۔
