’’مشعلِ راہ‘‘

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
تمام تعریفیں اس رب ذوالجلال کے لئے ہے جو تنہا ہمارا خالق وہ مالک اور رب العالمین ہے اور بے شمار درود و سلام ہو تمام نبیوں کے سردار اور محسنِ انسانیت محمد ﷺ پر جنھیں سارے انسانوں کے لئے ہدایت اور رحمت کا پیکر بناکر مبعوث کیا گیا ۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہماری زندگی میں کتاب اﷲ اور سُنتِ رسول ﷺ کی جو اہمیت ہے اور ہونی چاہئے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور جو ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔
شریعت اسلامی کی اساس پر قرآن مجید کو اولین مقام حاصل ہے اور اُس کے فوراً بعد ہی سُنتِ رسول ؐ کا درجہ ہے ۔ بقول شیخ سعدی شیرازیؒ
’’ لَا يُمْكِنُ الثَّنَاءُ كَمَا كَانَ حَقُّهٗ
بعد از خُدا بزُرگ تُوئی، قِصہ مختصَر ‘‘
رسول اﷲ ﷺ کی یہ واضح ترین ہدایت ہمارے لئے قرآن و حدیث کے مقام و مرتبہ کی اہمیت کو مزید اُجاگر کرتی ہے ۔ آپؐ نے خطبۃ الوداع میں فرمایا : ’’میں تمہارے لئے صرف دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ۔ تم جب تک اُنھیں مضبوطی سے تھامے رہو گے گمراہ نہیں ہوگے ۔ ایک اﷲ کی کتاب اور دوسری میری سنت ۔ ( متفق علیہ ) آج بھی بکھری ہوئی اُمتِ مسلمہ کے لئے آپسی اتحاد و اتفاق کے لئے کوئی نسخۂ کیمیا اگر ہوسکتا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اُمت پھر سے قرآن و سنت کی مضبوط بنیادوں پر متحد ہوجائے ۔
امام مالکؒ کا یہ معروف قول ہمیں آج کے پُرآشوب صورتحال میں مسلسل دعوتِ فکر و عمل ہے کہ اس اُمت میں جو لوگ بعد میں آئے ہیں یا آرہے ہیں اُن کی اصلاح و فلاح انہی بنیاد پر ممکن ہے جن پر اس اُمت کے سابقین و اولین کی اصلاح ممکن ہوسکی تھی ۔ یعنی جس طرح صحابہ کرام نے قرآنی تعلیمی اور نبی اکرم ﷺ کی سنت کو اپنی ہر خواہش اور ہر مرضی پر مقدم کرکے دنیا و آخرت میں کامیاب اور کامران ہوئے ہمارے لئے بھی اس دنیا و آخرت میں کامیابی اور کامرانی کے لئے کوئی دوسرا راستہ نہیں ۔
آسمانِ سنتِ نبویؐ کے دو روشن ترین ستاروں نے نبی اکرم ﷺ کے ارشادات ، سُنتوں کو اپنی اپنی کتاب الصحیح میں یکجا کیا ہے ۔ دُنیا اُنھیں امام عبداﷲ محمد بن اسمعیل بخاری اور امام ابوالحسن مسلم بن شیری رحمہ اللہ کے نام سے جانتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ اُمت مسلمہ آج جن فرقوں اور ٹولیوں میں بٹ گئی ہے اُس کا حقیقی سبب قرآن اور سنت سے دوری ہے ۔ آج کے دور میں مادہ پرستی کا زور ہے ۔ انسانیت کی شریفانہ قدریں دم توڑ رہی ہیں ۔ عقل مندی و دانش مندی کے قدریں اور اوصاف تبدیل ہورہے ہیں ترقی و جدت پسندی اور روشن خیالی کے نام پر مکاری و عیاری ، شعبہ بازی اور دھوکہ دہی ، بدزبانی اور خوشامندی کو ہُنرمندی اور فنکاری سمجھا جارہا ہے ۔
اہل ایمان خوش نصیب ہیں کہ اس پُرفتن دور میں اُن کے پاس قیامت تک زندگی کے تمام معاملات میں اُن کی صحیح رہنمائی کے لئے قرآن اور سنت کی تعلیمات ہیں ۔ مغربی دنیا میں ایک خاموش سازش یا تحریک چل پڑی ہے جو ہمارے چند بکاؤ علماء کی مدد سے مغربی تہذیب اور قدروں کو ’’دوسرے اسلام ‘‘ یا ’’جدید اسلام ‘‘ کا لباس پہناکر دینِ مسیحی کے ایک احتجاجی فرقہ “Protestants” کی طرح ہمارے نوجوان مسلم ذہنوں کو گمراہ کررہی ہے جس کا ہم کو احساس تک نہیں ۔ ؎
آہ! اے مردِ مسلماں تجھے کیا یاد نہیں
حرفِ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ
اﷲ کے خزانوں میں سب سے قیمتی خزانہ ’’راہِ ہدایت ‘‘ ہے ۔
اﷲ کریم تو ہم سب کو ’’صراط المستقیم ‘‘ پر چلنے کی ہدایت فرما۔ اُن لوگوں کے راستوں پر جن پر تو اپنا فضل و کرم کرتا رہا نہ کہ اُن لوگوں کے جن پر تیرا غضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے ۔
ہمیں صحیح معنوں میں ’’اُمت رحمت للعالمینؐ ‘‘ بنا ۔ آمین یا رب العالمین ‘‘ اور ہم اس کے مصداق بن جائیں ۔
’’مزاج اپنا کچھ ایسا بنالیا ہم نے
کسی نے کچھ بھی کہا مسکرادیا ہم نے ‘‘