مشکل میں پھنسے غیرملکیوں کو راحت

   

کے این واصف

سعودی عرب میں ایسے تارکین وطن جن کا قیام کسی وجہ سے غیرقانونی ہوجاتا ہے تو ان کا یہاں جینا بے حد مشکل ہوجاتا ہے یعنی جیسے ہی یہاں کسی شخص کے اقامہ کی مدت ختم ہوئی، اس کی حیثیت ’’غیرقانونی‘‘ ہوجاتی ہے، اس کیلئے قدم قدم پر رکاوٹیں اور مشکلیں پیدا ہوجاتی ہیں اور ان مشکلوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ پچھلے چند برسوں میں حکومت سعودی عرب نے تین مرتبہ تمام غیرقانونی تارکین وطن کو ایک مہلت کی مدت دی تھی اور اس مہلت کی مدت میں غیرقانونی تارکین وطن کو ان پر عائد تمام جرمانے اور سزائیں معاف کرکے انہیں اپنے وطن لوٹ جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس مہلت سے فائدہ اُٹھاکر لاکھوں تارکین وطن ’’مملکت کو خیرباد‘‘ کہہ گئے۔ اب پھر سے ہندوستان سمیت چند سفارت خانوں نے حکومت سعودی عرب کے خصوصی تعاون سے ایسے تارکین وطن جن کی حیثیت غیرقانونی کی ہوگئی ہے، انہیں اپنے متعلقہ سفارت خانے سے آؤٹ پاس حاصل کرکے اپنے وطن واپس ہونے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ یہ سہولت ’’ہروب‘‘ یعنی ملازمت یا کفیل سے فرار قرار دیئے گئے تارکین کو بھی حاصل ہے، لہذا ایسے سارے تارکین وطن جن کے اقامہ کی مدت ختم ہوگئی ہے، اقامہ تجدید ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے، اپنے کفیل سے نااتفاقی ہوگئی ہے یا کفیل سے رابطہ ختم کیا گیا ہے، ایسے سارے تارکین وطن اپنی ایمبیسی سے آؤٹ پاس حاصل کرسکتے ہیں اور بغیر کسی سزا یا جرمانہ ادا کئے، اپنے ملک لوٹ سکتے ہیں۔ ان دنوں بڑی تعداد میں ہندوستانی تارکین وطن ہر روز سفارت خانہ ہند پر جمع ہورہے ہیں اور اپنے خروج (فائنل اِگزٹ) کی کارروائی مکمل کروا رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مملکت کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو اس سہولت کا علم نہ ہو۔ سماجی تنظیمیں اس سلسلے میں اہم رول ادا کرسکتی ہیں۔ سوشیل میڈیا کی وساطت سے اس اطلاع کو عام کریں تاکہ اس سہولت سے وہ تمام لوگ فائدہ اٹھا سکیں، جن کی حیثیت مملکت میں غیرقانونی ہوگئی ہے۔
تارکین کی سہولت کیلئے یہاں اقامہ تجدید سے متعلق کچھ اور معلومات بھی دی جارہی ہیں۔ سعودی عرب میں قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کیلئے اقامہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ مقامی قوانین کے مطابق اقامے سعودی عرب میں تمام سرکاری معاملات بھی سال ہجری سے ہی طئے کئے جاتے ہیں، اس لئے یہ ضروری ہے کہ یہاں رہنے والے افراد ہجری کیلنڈر سے اچھی طرح واقف ہوں تاکہ انہیں اقامے کی تجدید کے حوالے سے کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ مملکت میں رہنے والے اکثر تارکین خواہ وہ نئے آئے ہوں یا برسوں سے یہاں مقیم ہوں، انہیں سال ہجری کا حساب رکھنے میں دشواری ہوتی ہے جس سے بعض اوقات قانونی پیچیدگیوں کا بھی سامنا کرنا پڑجاتا ہے۔ بعض کفیل اپنے ملازمین کے اقاموں کی تجدید میں لاپرواہی برتتے ہیں جس کا خمیازہ مکفول یعنی غیرملکی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال سے بچنے کیلئے حفظ ماتقدم کے طور پر کیلنڈر سے بھی واقفیت رکھی جائے تاکہ اقامے ہجری تاریخ کے مطابق بروقت تجدید کرواکر جرمانوں اور سزا سے بچا جاسکے۔
مملکت میں سعودی محکمہ پاسپورٹ اینڈ ایمگیریشن (جوازات) اقاموں کی تجدید کا کام کرتا ہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے ایک سال قبل یہ قانون نافذ کیا جاچکا ہے کہ اقاموں کی تجدید میں تاخیر کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ جرمانے کا مقصد ان عوامل کا سدباب کرنا ہے جن سے تارکین وطن کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بروقت اقامہ تجدید نہ کرنے کی سزا کے بارے میں مزید بتایا گیا کہ پہلی بار تجدید میں تاخیر کی صورت میں 500 ریال جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ جوازات کے مرکزی سسٹم میں اقامہ ہولڈر کی پروفائیل میں خود کار طریقہ سے اس بات کا اندراج ہوجاتا ہے کہ تجدید میں پہلی بار تاخیر ہو تو اور اس مد میں جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ دوسری بار تاخیر ہونے پر جرمانے کی رقم بڑھاکر ایک ہزار ریال کردی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جوازات کے مرکزی سسٹم سے اقامہ ہولڈر اور اس کے اسپانسر کو ریڈ الرٹ جاری کردیا جاتا ہے تاکہ آئندہ کیلئے تاخیر کی غلطی نہ دہرائی جائے، نیز قانون کے مطابق اقامے کی تجدید میں تیسری بار ہونے والی تاخیر پر خود کار نظام کے ذریعہ اقامہ ہولڈر کا اکاؤنٹ بند کردیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی خودکار نظام قانون کرنے والے اداروں کو مطلع کردیتا ہے کہ مذکورہ شخص کا اقامہ مقررہ مدت کی تیسری حد سے تجاوز کرچکا ہے۔ اقامہ ہولڈر کا اکاؤنٹ بند ہونے کے بعد سسٹم مملکت سے بے دخلی کے آرڈز جاری کردیتا ہے جس کی اطلاع مرکزی کنٹرول روم کے ذریعہ تمام متعلقہ اداروں کو بھیج دی جاتی ہے۔ اقامہ تجدید میں تیسری خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ نہیں کیا جاتا بلکہ متعلقہ بندے کو مملکت سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ اقاموں کی تجدید کے بارے میں محکمہ جوازات کا کہنا ہے کہ احتیاط کے طور پر اقامے کی تجدید مقررہ تاریخ سے کم از کم تین دن قبل کرالی جائے تاکہ ممکنہ جرمانے اور سزا سے بچا جاسکے۔ واضح رہے کہ محکمہ جوازات نے چار برس قبل تارکین وطن کے اقامہ کارڈز کی کارآمد مدت پانچ سال کی ہے۔ جس کا اندراج کارڈ پر ہوتا ہے، تاہم سسٹم میں ہر برس فیس کی ادائیگی کے بعد ان کی تجدید سسٹم میں ہوجاتی ہے۔ پانچ سالہ اقامہ کارڈ کی اجرائی سے قبل ہر برس نیا اقامہ کارڈ جاری کیا جاتا تھا۔ نئے طریقہ کار کی وجہ سے یہ سہولت ہوگئی ہے کہ اقامہ کارڈ پانچ سال بعد ہی تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ جب سے کارڈ پانچ سال کیلئے جاری ہونا شروع ہوا تب سے وہ تارکین جو ہجری کیلنڈر سے واقف نہیں ہوتے، انہیں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اقامہ کارڈز پر جو تاریخ Expiry یا انتہائی مدت لکھی ہوتی ہے وہ پانچ سال کی ہوتی ہے۔ یہ تاریخ اس دن کے حساب سے درج ہوتی ہے جس دن جوازات کے سسٹم میں اقامہ کارڈز پرنٹ ہوا ہوتا ہے۔ بہرحال ہر خارجی باشندے کو اپنے اقامہ کی تجدید کی تاریخ یاد رکھنی چاہئے اور قبل از وقت اس کی تجدید کی کارروائی شروع کردینی چاہئے تاکہ اس اہم ترین دستاویز (اقامہ) کی تجدید کا عمل بروقت مکمل ہوجائے۔
خیرمقدم
ریاض میں پچھلے ہفتہ Future Investment Initiative Summit کا انعقاد عمل میں آیا۔ حکومت سعودی عرب نے وزیراعظم ہند نریندر مودی کو اس کانفرنس کیلئے خصوصی طور پر مدعو کیا تھا، اس کانفرنس کے کوریج کیلئے دنیا بھر سے صحافی بھی مدعو کئے گئے تھے جس میں ہندوستان سے جملہ 26 صحافی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے مملکت کے مہمانان تھے۔ صحافیوں کے اس وفد میں حیدرآباد کے معروف صحافی ڈاکٹر فاضل حسین پرویز چیف ایڈیٹر ’’گواہ‘‘ ، ویکلی بھی شامل تھے۔ ’’ہندوستانی بزم اُردو ریاض کے زیراہتمام قائم ’’بزم اُردو ٹرسٹ ماسٹرز کلب‘‘ نے ڈاکٹر فاضل حسین کے اعزاز میں ایک خیرمقدمی محفل کا اہتمام کیا جس میں ریاض کی کئی سماجی تنظیموں کے اراکین اور بزم اُردو ٹرسٹ ماسٹرز کلب کے ممبرز کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فاضل حسین پرویز نے این آر آئیز کو مشورہ دیا کہ وہ ملک میں اپنے اپنے اہل خانہ کے ووٹرز کارڈز، آدھار کارڈز، Pan Card، پیدائش کے صداقت نامے اور دیگر دستاویز مکمل کرنے کا فوری اہتمام کریں، کیونکہ NRC قانون کے لاگو ہونے کے بعد ان دستاویز کی عدم موجودگی بڑی پریشانی کا باعث ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہر کام آن لائن کیا جاسکتا ہے۔ ہم دن کا بڑا حصہ کچھ نہ کچھ کرتے ہوئے آن لائن پر رہتے ہیں۔ اس وقت میں سے چند لمحے آپ اپنے اس اہم کام کو دیں تو آپ آنے والی ایک بڑی مصیبت سے بچے رہ سکتے ہیں۔ فاضل نے کہا کہ این آر آئیز پوسٹل بیالٹ کی مانگ بھی کرسکتے ہیں یا پھر کم از کم NRC کیلئے اپنی ایمبیسی سے کوئی بہت ہی مستند و معتبر دستاویز کے اجراء کی مانگ کرسکتے ہیں ۔فاضل حسین پرویز نے یہ بھی کہا کہ ہندوستانی قوم کی سب سے بھیانک غلطی یہ ہے کہ وہ اپنا دستوری حق استعمال نہیں کرتے۔ جمہوریت میں عام شہریوں کی طاقت ان کا ووٹ ہے اور ہم اسے بڑی آسانی سے ضائع کردیتے ہیں۔ ہماری 40% سے 50% کی عام پولنگ اگر90% ہوجائے تو ملک کا سیاسی نقشہ بدل جائے۔ ہمیں خوابِ غفلت سے نکلنا چاہئے کیونکہ غافلوں کی مدد اللہ بھی نہیں کرتا، سیاسی پارٹیوں اور سماجی تنظیموں کو بھی حق رائے دہی کیلئے شعور بیداری مہم چلانی چاہئے، نیز ہماری قوم میں تعلیم کی اہمیت اور کردار سازی پر بھی بھرپور توجہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں انجینئر اور ڈاکٹر بنانے کے رجحان کو بدلا جانا چاہئے۔ وکیل، صحافی، انڈین سرویس آفیسر اور CA’s ان کے اچھے متبادل ہیں۔ ہماری قوم کو اچھے وکیل اور صحافیوں کی ضرورت ہے۔ ہمارے دستوری حقوق کے حاصل کرنے میں یہ دو پیشہ ور ہمارے لئے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر فاضل حسین پرویز نے اُردو ٹرسٹ ماسٹرز کے اراکین کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے اجلاس میں اپنے نو عمر بچوں کو بھی ساتھ لائیں تاکہ بچوں میں اُردو زبان سے دلچسپی بڑھے اور نئی نسل میں زبان کی منتقلی کا عمل چلتا رہے۔ فاضل نے کہا کہ بابری مسجد سے متعلق ہم مجموعی طور پر اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ ہم عدالت عظمی کے فیصلے کا احترام کریں گے، مگر ہمیں اپنی مساجد کو آباد رکھنے پر سب سے زیادہ توجہ دینا بھی ضروری ہے۔ مساجد کی حفاظت انہیں آباد رکھنے میں ہے۔ فاضل حسین پرویز نے آخر میں حاضرین کے سوالات کے جواب بھی دیئے۔ صدر ٹرسٹ ماسٹر کلب انجینئر محمد مبین نے خیرمقدم اور عبدالقدوس جاوید نے اجلاس کی نظامت کی ۔ واضح رہے کہ بزم اردو ٹرسٹ ماسٹرز اُردو زبان کے فروغ کیلئے قائم کیا گیا ہے اور یہ کلب پچھلے تین سال سے زائد عرصہ سے اردو کی ترقی و ترویج میں اپنا حصہ ادا کررہا ہے۔٭