مظفرنگر میں ٹھاکروں کی ناراضگی اور مسلم اتحاد سے سیاسی منظر تبدیل!

   

لکھنؤ: لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلہ کی انتخابی مہم آج تھم گئی۔ اس پہلے مرحلے میں 19 اپریل کو پورے ملک کی 102 سیٹوں پر امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ یوں تو اس مرحلے میں ملک بھر کی 21 ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام خطوں میں ووٹنگ ہونے والی ہے لیکن سب سے زیادہ تذکرہ اترپردیش کی ان 8 سیٹوں کا ہے جہاں کے رجحان کا اثر بہت حد تک پوری ریاست پر ہوتا ہے۔ یوں بھی مغربی سمت سے بہنے والی ’پچھوائی‘ کا اثر کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ مغربی اترپردیش کی ان سیٹوں کا سیاسی منظر اس لیے بھی معنی رکھتا ہے کیونکہ یہاں پر جاٹ، مسلم اور دلت رائے دہندگان کا ایک ایسا مثلث ہے جس کے چند فیصد کے کسی ایک جانب جھک جانے سے نہ صرف پانسہ پلٹ جاتا ہے بلکہ یہ اس پارٹی کی قسمت کا فیصلہ بھی کر دیتا ہے جس پر یہ مہربان ہوتا ہے۔مغربی اترپردیش کی جن 8 سیٹوں پر پہلے مرحلے میں ووٹنگ ہونے والی ہے ان میں ایسی سیٹیں بھی شامل ہیں جو تینوں مثلث یعنی، جاٹ، مسلم اور دلت کے اثرات والی سیٹیں ہیں۔ مظفرنگر ان میں سے سب سے زیادہ اہم ہے جہاں مسلم رائے دہندگان کی تعداد خاطر خواہ ہے۔ یہاں کے کل 18 لاکھ ووٹرس میں سے تقریباً 20 فیصد ووٹرس مسلم ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں پر 18 فیصد دلت، 12 فیصد جاٹ اور 10 فیصد تک ٹھاکر ہیں۔ اس لحاظ سے اس سیٹ پر مسلمانوں کی اثراندازی دیگر برداریوں سے زیادہ ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ یہاں پر مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم بھی خوب ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سے مرکزی وزیر سنجیو بالیان گزشتہ دو بار سے بی جے پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہو رہے ہیں۔لیکن اس بار یہاں کی صورت حال کافی بدلی ہوئی ہے۔ بی جے پی نے یہاں سے سنجیو بالیان کو اپنا امیدوار بنایا ہے جنہیں ٹھاکر برادری کے لوگوں کی زبردست ناراضگی کا سامنا ہے۔ یہاں کے ٹھاکر ووٹرس اس بار سریش رانا اور سنگیت سوم کے ساتھ ہیں۔ کچھ لوگ اسے بی جے پی کی اندرونی لڑائی بھی کہتے ہیں۔ 2019 کے الیکشن میں کانگریس و سماجوادی پارٹی الگ الگ میدان میں تھیں۔ اْس وقت سماجوادی پارٹی کا اتحاد آر ایل ڈی اور بی ایس پی کے ساتھ تھا۔ یعنی مسلم ووٹ جو مظفر نگر میں فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے وہ دو خیموں میں تقسیم ہو گیا تھا۔مسلم ووٹوں کی تقسیم کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ بی جے پی اور سماجوادی اتحاد کو تقریباً یکساں ووٹ ملے تھے۔ ٹھاکروں کی بی جے پی سے ناراضگی اگر 19 اپریل تک برقرار رہی اور مسلمانوں نے اپنے ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچا لیا تو یقین جانیے کہ اس پہلے مرحلے کی سب سے اہم سیٹ سے ہی کمل کا مرجھانا شروع ہو جائے گا۔