معاشی بحران خدا کا کرشمہ ہے

   

فاطمہ حسن
نئی معاشی پالیسی کا جب بھی اعلان کیا جاتا ہے اسے عوامی گوشہ میں جانچا جاتا ہے کہ کیا یہ اپنے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے۔ اس تخمینہ پر مبنی حکومتیں فیصلہ کرتی ہیں پیشرفت کی جائے یا پالیسی سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا جائے۔ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں نئی معاشی پالیسیوں کا اعلان کرنے سے پہلے ان باتوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا اور اس کے طویل مدتی اثرات کو بھی ذہن نشین کرنا پڑے گا۔
2017 میں یکم جولائی کو انتہائی دلیرانہ معاشی نظام برائے اشیاء و خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی) کا آغاز 101 ویں ترمیم برائے دستور ہند کے ذریعہ مرکزی حکومت میں آغاز کیا تھا۔ جی ایس ٹی موجودہ کئی ٹیکسیس کی جانشین تھی جو مرکزی و ریاستی حکومتیں عائد کرتی تھیں۔
اس کے علاوہ منفی اثرات چھوٹی اور رسمی صنعتوں پر مرتب ہوئے جنہیں اپنے اخراجات کے ذریعہ جی ایس ٹی کی مختلف تکمیل مشکل محسوس ہوئی۔ کمپیوٹر میں متعدد کام کے طریقوں اور فائلوں کا کھلنا ضروری ہوگیا تھا جس کے نتیجہ میں ٹیکس کی کمی واقع ہوئی۔ جی ایس ٹی نظام نے حکومت کے مالیہ پر منفی اثر مرتب کیا اس کے علاوہ مرکز اور ریاستوں کے درمیان بھی مالیہ میں تقسیم کا سوال پیدا ہوا۔
اب شدید معاشی بحران کے دور سے ملک گذررہا ہے۔ عوام اس فیصلے پر اعتراض کررہے ہیں کہ جی ایس ٹی سے دستبرداری اختیار کی جائے اور اس کے نفاذ کا وقت بھی قابل اعتراض ہے۔ جی ایس ٹی کے پیدا کئے ہوئے مسائل کا حل کب ہوگا اور یہ کب حل ہوں گے، پیشرفت کا کیا طریقہ ہوگا۔جی ایس ٹی کے بے نقاب ہونے کے بعد یہ مالی انحطاط کا شکار ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی خود مکتفی معیشت ایک ناقابل عمل نظریہ معلوم ہوتا ہے۔

فوری طور پر ملک کو سب سے پہلے معاشی بحالی کی ضرورت ہے اور اس کے بعد ہم خود مکتفی ہونے پر اور عالمی طاقت بننے پر غور کرسکتے ہیں۔ دونوں ایک ہی پالیسی کا حصہ ہوں گی۔ معاشی بحران جی ایس ٹی کا لایا ہوا ہے اس سے جی ڈی پی کے فروغ پر بھی منفی اثر مرتب ہوا ہے۔ ریاستوں کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ریاستوں کو آر بی آئی سے قرض لینے کا اور مرکز جی ایس ٹی کا معاوضہ دینے سے قاصر رہنے کا اعلان کرکے حکومت کوشش کررہی ہے کہ اپنی مخالف آوازوں کو کچل دے۔ اب مرکز کے لئے وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کرے اور اس مشکل وقت میں ریاستوں کے ساتھ تعاون کریں۔ مرکز کی جانب سے اپنے سرکاری اکاؤنٹ پر آر بی آئی اور غیر ملکی اداروں سے قرض حاصل کرنا چاہئے اور ریاستوں کو زیر التواء جی ایس ٹی کا معاوضہ ادا کرنا چاہئے۔ اس کے بعد ہی صنعتیں اور کاروبار کام کرنا شروع کرسکتے ہیں۔ اس لئے بعض امکانی راستوں پر غور کرنا ہوگا تاکہ موجودہ بحران پر قابو پایا جاسکے اور ان سے نمٹا جاسکے۔ جی ایس ٹی کے معاوضہ کو عبوری مدت کے لئے جولائی 2017 سے جون 2022 تک ادا کرنا چاہئے لیکن معاوضہ میں جو وقفہ پیدا ہوگیا ہے اس کو ختم کیا جاسکتا ہے اور اس کے لئے ہندوستان کے مرتکز مالیہ کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جی ایس ٹی کونسل کا اجلاس حال ہی میں منعقد کیا گیا تھا جس میں اٹارنی جنرل نے دو متبادل تجویز پیش کئے گئے تھے، ایک تو یہ کہ ریاستیں آر بی آئی سے 97 ہزار کروڑ روپے قرض لیں اور دوسرا متبادل یہ کہ پورا قرض حاصل کرکے 2.35 کروڑ روپے جی ایس ٹی وصولی اور متوقع کمی کو پورا کرنے کے لئے استعمال کریں جو وباء کی وجہ سے پیش آنے والی ہے۔ ہم کوئی دوسرا متبادل راستہ معمولی سی تبدیلی کے ساتھ اختیار کرسکتے ہیں۔ ریاستوں کے بدلے مرکز قرض حاصل کرسکتا ہے۔ جی ایس ٹی اور کووڈ سے جو بحران پیدا ہوا ہے یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں اور ان سے مختلف طور پر نمٹا جانا چاہئے انہیں ایک جیسا نہیں سمجھنا چاہئے۔ مرکزی حکومت کو قرض پر سود سے ہونے والے اضافی اخراجات کو برداشت کرنا چاہئے اور ریاستوں کے جی ایس ٹی کے معاوضہ میں کمی نہیں کرنی چاہئے۔

ریاستوں پر عدم ادائیگی سے مرتب ہونے والے اثرات
جی ایس ٹی کی وجہ سے ریاستوں کے پاس ٹیکس عائد کرنے کے اختیارات نہیں رہے سوائے پٹرولیم الکحل اور اسٹامپ ڈیوٹی کے دیگر ٹیکسیس جی ایس ٹی کے تحت معطل کردیئے گئے ہیں۔ جی ایس ٹی کا حساب کتاب یہ ہے کہ ریاستوں کو ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 42 فیصد اس میں شامل کردیا گیا ہے۔ ریاستوں کی 60 فیصد آمدنی جو ریاستوں کا مکمل مالیہ ہے اس میں سے 42 فیصد مرکز نے لے لیا ہے لیکن اگر مرکز جی ایس ٹی کے معاوضہ میں ریاستوں کو ادائیگی نہیں کرتا ہے تو ریاستیں مالیہ حاصل کرنے کے لئے دوسری اشیاء اور خدمات کے ٹیکس عائد نہیں کرسکتیں۔

چنانچہ مرکز کو ریاستوں کے مالی نقصان کی مکمل طور پر پابجائی نہ کرنے کی صورت میں جی ایس ٹی کے نظام میں تبدیلی کرکے ان کی پابجائی کرنی چاہئے۔ ٹیکس کی وصولی میں اضافہ کرنا چاہئے۔ فی الحال 12 سے زیادہ ریاستوں کا مالیہ شدید دباؤ کے تحت آگیا ہے جس کے نتیجہ میں تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہو رہی ہے اور رقمی خرچ میں کمی کرنی پڑرہی ہے۔ اس کے علاوہ وباء کے نتیجہ میں اور لاک ڈاون کے نتیجہ میں صحت کے شعبہ پر زیادہ خرچ ہورہا ہے۔ مرکزی معتمد مال نے اعتراف کیا ہے کہ جی ایس ٹی کی وصولی وباء کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی ہے۔ توقع ہے کہ مالیہ مزید متاثر ہوگا کیونکہ معیشت میں جاریہ سال مزید انحطاط پیدا ہونے کی پیش قیاسی کی گئی ہے۔ یہ مرکز اور ریاستی حکومتوں کی صورتحال ہے، چنانچہ دونوں کو ایک دوسرے سے 50:50 کی بنیاد پر تعاون کرنا پڑے گا۔ حکومت کو 2024 تک خلیج کو پاٹنے میں کم از کم اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔

چنانچہ مرکز کو پوری طرح لاپرواہی کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ جی ایس ٹی کونسل کو چاہئے کہ فی الحال وباء سے نمٹنے کو اولین ترجیح دی جائے اور ہنگامی حالات سے نمٹا جائے کیونکہ وباء سے نمٹنا اولین ترجیح ہے اور وہ صرف یہ کہہ کر کہ ’’یہ خدائی کرشمہ ہے‘‘ اپنی ذمہ داری سے فرار نہیں اختیار کرسکتی۔ ان کو چاہئے کہ ٹیکس وصول کرنے کے لئے حکمت عملی تیار کرے اور معاشی فروغ حاصل کرے۔