معاملہ انڈیا کا ہو یا افغانستان، فوج ہمیشہ ہمارے ساتھ :عمران

,

   

ہم خوابوں کی دنیا میں نہیں رہتے ، حقائق کا سامنا کرنے کی جرأت کے حامل
کشمیر کی جغرافیائی صورتحال میں تبدیلی تشویشناک ۔ وزیراعظم پاکستان کا انٹرویو

اسلام آباد ؍ دوحہ: پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم خوابوں کی دنیا میں نہیں رہتے جہاں جادو کی چھڑی گھماتے ہی حالات تبدیل ہو جائیں گے بلکہ حقیقی زندگی میں ایسا کرنے کے لیے بہت جد و جہد درکار ہوگی۔ پاکستانی وزیر اعظم نے قطری خبر رساں ادارے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کرپشن کی وجہ سے معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں لیکن ان کی حکومت کے دو برسوں میں کوئی ‘میگا کرپشن’ اسکینڈل سامنے نہیں آیا ہے کیوں کہ ’حکومت کی اوپر کی سطح پر اسے قابو کر لیا گیا ہے۔‘ ‘ماضی میں جو طاقت میں آئے انھوں نے اس کا فائدہ اٹھایا لیکن ان کا احتساب نہیں ہوا۔ اب ہماری تاریخ میں پہلی بار طاقتور کا احتساب ہو رہا ہے۔’پروگرام ‘ٹاک ٹو الجزیرہ’ میں میزبان ہاشم اہلبرا سے تقریباً 20 منٹ کی گفتگو میں عمران خان نے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا۔ پاکستان میں آزادی اظہار رائے سلب کرنے کے الزامات کے جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انھیں شواہد دکھائے جائیں کہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے پر کیسے پابندی لگائی جا رہی ہے اور بتایا جائے کہ گذشتہ دو برسوں میں پاکستان میں کتنے صحافیوں کو اغوا کیا گیا۔’بس شاید ایک واقعہ ہوا تھا، کسی صحافی نے دعویٰ کیا تھا، ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اسے اٹھانے کی وجوہات کیا تھیں، بس کچھ گھنٹوں کے لیے اٹھایا گیا تھا۔’وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ تنقید سے نہیں گھبراتے لیکن ان کی حکومت کے خلاف ’کھلم کھلا پروپیگنڈا‘ کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس قسم کا مواد ان کی حکومت کے خلاف میڈیا پر چلا ہے، اگر یہ برطانیہ ہوتا تو ان کی حکومت اور وزرا کو لاکھوں ڈالر ہرجانے کی صورت میں مل چکے ہوتے۔ ‘بدقسمتی سے ہماری حکومت، ہمارے وزرا خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ اگر کوئی جعلی خبریں چلائے وزیر اعظم کے خلاف اور وزیر اعظم انھیں عدالت لے جائے، تو کیا یہ ڈرانا دھمکانا شمار ہوگا؟۔۔۔ اب ہمیں تحفظ کی ضرورت ہے۔’سویلین حکومت اور فوج سے تعلقات کے بارے میں سوال پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستان میں سویلین حکومتوں اور فوج کے درمیان تعلقات میں مشکلات رہی ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہے اور دونوں کے درمیان اچھے تعلقات ہیں۔ ‘میں بلاجھجک یہ کہہ سکتا ہوں کہ اب تک کا سب سے زیادہ ہم آہنگی پر مبنی تعلق ہے۔ ہم ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ فوج مکمل طور پر ہماری پالیسیوں کے ساتھ کھڑی ہے، چاہے وہ انڈیا کا معاملہ ہو یا افغانستان میں امن کا معاملہ ہو۔ فوج ہر قدم پر ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔’انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے حوالے سے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے بارے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کی خواہش تھی کہ او آئی سی کشمیر کے معاملے کو زیادہ اہمیت دے۔’لیکن میں یہاں پر یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کا دوست رہے گا۔ لیکن ہاں، ہماری خواہش ہے کہ او آئی سی اس معاملے پر زیادہ اہم کردار ادا کرے۔’افغانستان میں امن قائم کرنے کے حوالے سے سوال پر وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کا ہمیشہ یہ موقف رہا تھا کہ افغان مسئلے کا صرف سیاسی حل ہو سکتا ہے، جنگی حل نہیں۔’جس چیز کو بھی افغان عوام اپنے لیے بہتر سمجھتے ہیں، وہ ہمارے لیے بھی بہتر ہوگا۔ ہماری دعا ہے کہ یہ کامیاب ہو جائے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایک ملک، انڈیا ایسا ہونے نہیں دینا چاہتا۔‘ انڈیا سے تعلقات کے معاملے پر وزیر اعظم نے کہا کہ انھوں نے تو اپنا عہدہ سنبھالتے ہی انڈیا کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا ’لیکن انڈیا پر اب انتہا پسندوں کی حکومت ہے۔‘ان کا کہنا تھا ‘ہم نے کشمیر کے معاملے پر دنیا بھر میں آواز اٹھائی کہ کشمیریوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے اور اگر یہ مسئلہ بڑھ جائے تو یہ دنیا بھر کے لیے مسئلہ بن جائے گا۔ لیکن باقی دنیا اس پر کچھ نہیں کہہ رہی، کیونکہ ان کو اپنے تجارتی مفادات کی پرواہ ہے، وہ انڈیا کو ایک مارکیٹ کے طور پر دیکھتے ہیں تو وہاں ہونے والی ناانصافیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔’