معراج ، مذہب اور سائنس

   

مولانا شاہ محمد فصیح الدین نظامی
واقعۂ معراج کو مسلمانوں کے ہاں قدرتاً بڑی اہمیت حاصل ہے۔ مسلمانوں کی جملہ ادبیات میں معراج ایک مقبول موضوع رہا ہے۔ ہر مذاق کے مصنف نے اس پر قلم اٹھایا ہے عالم، مفسر، محدث ہی نہیں فلسفی ، صوفی، متکلم، واقعہ گو اور شاعر یہاں تک کہ رند مشربوں نے بھی اس کو بیان کیا ہے۔
حضراتِ انبیائے کرام اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کا پیغام رشد و ہدایت لوگوں کو سناتے ہیں سعادت مند لوگ ان کا پیغام سن کر فورًا ایمان لے آتے ہیں مگر بدقسمت افراد تذبذب اور تردد کا شکار ہوجاتے ہیں ان کے لئے اﷲ تعالیٰ اپنے رسولوں کی تائید و تصدیق کیلئے کبھی عجیب و غریب چیزیں بطور دلائل و بینات ظاہر کرتا ہے، ان چیزوں کا تعلق ز مین سے بھی ہوسکتا ہے، آسمان سے بھی، ان کا اثر عالم سفلی میں بھی ظاہر ہوتا ہے اور عالم علوی میں بھی، انہیں خلاف عادت کاموں اور چیزوں کو معجزات کہتے ہیں۔ معجزہ انبیائے کرام کی صداقت اور حقانیت کی منھ بولتی دلیل کا کام بھی دیتا ہے۔ قرآن مجید میں لفظ معجزہ کے مفہوم کو ادا کرنے کیلئے لفظ آیت استعمال کیا گیا ہے۔ قدرت الہیہ کی ہر شیٔ آیت ہے اور جب عوام کے اذہان و افہام اسے آیت سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں تو انبیائے کرام کے بیان سے ان کا آیت ہونا مسلم ہوجاتاہے۔ انبیائے کرام کے معجزات کی فہرست میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آتش نمرود کو گلزار میں تبدیل کردینا، حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو معجزہ بنادینا، حضرت داؤد علیہ السلام کیلئے پہاڑوں اور پرندوں کو تابع کردینا، حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے ہوا، جنات، پرندوں اور جانوروں کو مسخر کردینا، ملکہ سبا کے تخت کو آن واحد میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں پہنچادینا، حضرت موسی علیہ السلام کی دعا پر من و سلوی نازل کرنا، عصا کے ذریعہ بارہ چشمے جاری کرنا، درمیان دریا لشکر کو غرق کرنا وغیرہ شامل ہے۔ آیات ظاہری اور باطنی بھی ہوسکتے ہیں یا ان کو کونیہ اور کلامیہ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ جویانِ حق وصداقت اور سعادت مند معجزے طلب نہیں کرتے صرف جاہل متعصب اور معاند لوگ ہی معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں۔
آنحضرت ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے ہر قسم کے بے شمار معجزات سے نوازا جو اپنی ندرت اور کثرت کے اعتبار سے امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ شق قمر، رجعت شمس، اسراء و معراج، پانی کے پیالے میں انگشت مبارک سے پانی کا پھوٹ پڑنا اور بہت سے لوگوں کا وہ پانی پینا اور وضو بھی کرنا۔ کم کھانے میں اتنی برکت کہ اسی (۸۰) صحابہ کرام کا کھانا کھانا۔ دو سیر آٹے میں ۱۳۰ صحابہ کا شکم سیر ہو کر کھانا۔ ہزارہا معجزات میں معراج کو بڑی شہرت حاصل ہے۔معراج کا ذکر قرآن مجید کے سورۂ بنی اسرائیل، سورۃ النجم اور سورۃ التکویر میں کیا گیا ہے۔ معراج کا مادہ ع ر ج ہے اس کے لغوی معنی سیڑھی کے ہیں۔ اور اصطلاح میں بلندی اور کمال روحانی اور خاص کر تقرب الہی حاصل کرنے کے ہیں۔ معراج کا خاص تعلق حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات مبارک سے ہے۔ معراج کے واقعہ کی جزئیات میں کچھ اختلاف ہے لیکن روایات کے اختلاف سے واقعہ کا تعدد لازم نہیں آتا۔ روایات کا اختلاف کئی وجہ سے ہوسکتا ہے مفسرین کے خیال کے مطابق سورۂ اسراء یعنی سورۂ بنی اسرائیل پوری کی پوری معراج ہی کے حالات پر مشتمل ہے۔
معراج کے واقعہ کی تعبیر اسراء سے بھی کی گئی ہے۔ اسراء کا لفظ سری سے باب افعال کا مصدر ہے جس کے معنی رات کے بیشتر حصہ میں چلا ۔ اصطلاح میں اسراء کا تعلق نبی اکرم ﷺ کے واقعۂ معراج سے ہے ۔ اسلامی اعتقاد یہ ہے کہ اس سفر میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھوں سے شرائط رؤیت کے تمام حجابات ہٹادئے گئے۔ اسباب سماعت کے عام قوانین دور کردئے گئے اور زمان و مکان کی وسعتیں آپ کے لئے سمیٹ دی گئیں۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام اپنے اپنے مقام و مرتبے کے مطابق ایسے بلند و بالا مشاہدہ سے نوازے جاتے رہے ہیں لیکن اس بارے میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت رفعت اور بلندی سب سے بڑھ کر ہے۔ اسراء اور معراج ایک ہی چیز ہے یا الگ الگ اس بارے میں عام رجحان یہ ہے کہ اسراء اور معراج ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ گویا مکانی حیثیت سے اس کا نام معراج اور روحانی حیثیت سے اسراء۔ لیکن ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اسراء اور معراج دو علحدہ علحدہ روحانی مشاہدات ہیں۔ جن میں ایک کو اسراء اور دوسری کو معراج کہا جاتا ہے۔ اس خیال کے مطابق اسراء مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک ہوا اور معراج زمین سے آسمان تک۔ مشہور محدث علامہ زرقانی کے مطابق اسراء و معراج ایک ہی چیز ہے اور وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جمہور یعنی اکثر و بیشتر محدثین، متکلمین اور فقہاء کی رائے ہے اور صحیح روایات کا مسلسل بیان اسی بات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ شرح مواہب اللدنیہ میں ہے : اس مشہور و معروف ترین واقعہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسراء یا معراج جسمانی تھا یا روحانی، خواب میں تھا یا بیداری میں ؟ ایک نظریہ یہ ہے کہ معراج جسمانی حالت اور بیداری میں ہوا استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں ظاہر اور کھلے الفاظ میں اس واقعہ کو بیان کیا گیا ہے اس کی تأویل کی ضرورت نہیں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ محض رات کے وقت ایک خواب تھا دلیل یہ ہے کہ سورۂ بنی اسرائیل میں اس واقعہ کو رؤیا کہا گیا ہے اور رؤیا عالم غیب میں ہوتا ہے تیسرا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ یہ بیداری اور نیند کی درمیانی حالت تھی۔ چوتھا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اسراء یا معراج نہ تو محض ایک عام اور معمولی درجہ کا خواب تھا، جو عموما لوگ دیکھا کرتے ہیں اور نہ معمولی واقعہ تھا بلکہ وہ بیداری اس عام بیداری سے کئی مراتب بڑھی ہوئی تھی اور اس میں آپ ﷺ کے حواس کو وہ رفعت و بلندی اور وہ جلا بخشی گئی تھی جس کے مقابل میں ہماری بیداری بھی محض ایک خواب ہے۔ اور اگر یہ خواب یا کشف تھا تو ایسا خواب اور کشف جس پر ہماری ہزار بیداریاں قربان کی جاسکتی ہیں۔ بلکہ خود نبی اکرم ﷺ کے دوسرے خوابوں اور کشوف سے بدرجہا بڑھا ہوا تھا۔ یہ وہ حالت تھی جو اگرچہ بظاہر خواب ہو لیکن دراصل بیداری اور ہوشیاری بلکہ مافوق بیدای اور ہوشیاری۔ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس کو بیداری کا واقعہ کہا ہے وہ بھی مانتے ہیں کہ اس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حواس غیر معمولی طور پر جلایافتہ تھے اور جو اسے کشف و رؤیا یعنی خواب کا معاملہ قرار دیتے ہیں انہوں نے بھی اس واقعہ کے لئے منام اور رؤیا کے الفاظ استعمال کرکے حقیقت و مجاز ، استعارہ سے کام لیا ہے۔ اور وہ بھی اسے ایسا رؤیا قرار دیتے ہیں جو مشاہدۂ عینی کی طرح پیش آتا ہے۔ جیسا کہ امام خطابی ’’مصنف معالم السنن‘‘ نے لکھا ہے۔ زادالمعاد کے مصنف نے بھی لکھا ہے کہ علمائے جمہور کا قول ہے کہ اسراء بدن اور روح کے ساتھ تھا۔ رحمۃ للعالمین کے مصنف نے حاشیہ میں تحریر کیا ہے کہ عروج جسدی کا انکار آجکل کے فلسفہ خشک کی بنیاد پر فضول ہے کیونکہ جس قادر مطلق نے اجرام سماویہ کے بھاری بھرکم اجسام کو خلا میں تھام رکھا ہے۔ وہ جسم انسانی کے صغیر جرم کو خلا میں لیجانے کی قدرت رکھتا ہے۔ آجکل نائٹرو جن (گیاس) کی طاقت سے ہوائی جہاز اور جہازوں کے ذریعہ آدمی اڑ رہے ہیں۔ اس لئے خداوند کریم کا اپنے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو سواری براق جو برق سے مشتق ہے اور الکٹر سٹی کی طاقت مخفیہ کی جانب اشارہ کن ہے۔ ملکوت السموات کی سیر کرانا کچھ بھی مستبعد نہیں۔ میرا اعتقاد یہ ہے کہ معراج جسم کے ساتھ اور بحالت بیداری تھی۔
اسلامی قانون شہادت کے مطابق کسی معاملہ میں دوگواہوں کی گواہی کافی ہے۔ بجز ایک فعل حرام و قبیح جس میں چار گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔ حضرت خزیمہ رضی اﷲ عنہ کی گواہی استثنائی صورت رکھتی ہے۔ کسی واقعہ یا معاملہ میں گواہ جس قدر معتبر، متقی، متدین، عادل اور صادق ہوگا اسکی گواہی بھی اتنی ہی معتبر اور اعلیٰ ہوگی۔ ایسے صفات کے حامل گواہ کا بیان اور اسکی روایت اپنی صحت اور تواتر کی وجہ مصدقہ و مسلمہ قرار دی جائیگی۔
دیکھنا یہ ہے کہ واقعۂ اسراء یا معراج کے واقعہ میں اقرب ترین فیضان صحبت اور دیدار سے سرفراز ہونے والے نفوس قدسیہ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالی علیہم اجمعین اس عظیم کے واقعہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں اور ان کی زبانی بیان کردہ روایات کو کن کن جلیل القدر محدثین امت نے اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے راویان احادیث معراج مع حوالۂ کتب احادیث کچھ اس طرح محفوظ ہیں۔
۱۔ حدیث انس بن مالک رضی اﷲ عنہ، صحیح بخاری و ابن جریر بطریق شریک بن عبداﷲ عن انس ؓ، صحیح مسلم بطریق ثابت عن انس رضی اﷲ عنہ نسائی و ابن ماجہ بطریق یزید بن مالک عن انس۔ ابن ابی حاتم بطریق دیگر از یزید بن مالک ابن جریر و ابن مردویہ، بطریق عبدالرحمن بن ہاشم عن انس۔ احمد و ترمذی و بیہقی و عبد ابن حمید وابن جریر و ابن مردویہ و ابونعیم بطریق عن قتادۃ عن انس۔ ابوداؤد و احمد، بطریق عبدالرحمن بن جبیر عن انس۔ ابن مردویہ بطریق قتادۃ وسلیمان التیمی وعلی ابن زید عن انس۔ ابن سعد، سعید بن منصور بزاز، بیہقی، ابن عساکر، عن ابی عمران الجوفی عن انس۔
۲۔ حدیث جابر بن عبداﷲ صحابی بن صحابی رضی اﷲ عنہ۔ صحیح بخاری و مسلم عن جابر۔
۳۔ حدیث ابن عباس رضی اﷲ عنہما، صحیحین، من طریق قتادہ ابوالعالیہ عن ابن عباس۔ صحیح مسلم ایضا عن عباس۔ احمد، ابونعیم، ابن مردویہ، بسند صحیح، من طریق قابوس عن ابیہ عن ابن عباس۔ احمد، ابوالعلی ابونعیم، ابن مردویہ۔ من طریق عکرمہ عن ابن عباس۔ احمد نسائی بزاز، طبرانی، بیہقی، ابن مردویہ، من طریق سعید بن جبیر عن ابن عباس۔ ابن مردویہ، من طریق شہر بن حوشب عن ابن عباس۔(سلسلہ سپلیمنٹ صفحہ ۲پر)