معراج النبی ﷺ کا پیغام

   

ڈاکٹر محبوب فرید
زمین‘ آسمان ‘چاند‘ سورج ‘ستارے ‘شجر و حجر سب اس کے نظام کے پابند ہیں وہ چاہے تو آگ کو گلزار کرسکتا ہے ۔ وہ چاہے تو اپنے محبو ب بندے اور رسول ؐ کو پل بھر میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس اور پھر وہاں سے سات آسمانوں ‘ جنت دوزخ اور عرش بریں کا سفر کروا سکتا ہے ۔ جس کی دنیا میں کوئی مثال نہ ہو ۔ اس واقعہ کو اسراء و معراج کہا جاتا ہے ۔ جس نے دنیا کے بڑے بڑے حکماء اور فلاسفہ ‘ دانشور ماہر ِفلکیات اور فضائی سائنس دانوں کو حیرت میں ڈال رکھا ہے ۔دنیا جتنی ترقی کرتی جائے گی اتنی ہی اس واقعہ کی تصدیق کرتی جائے گی ۔
اسرا و معراج کا واقعہ معجزہ ہے ۔ مختلف روایات کی رو سے یہ وا قعہ ہجرت سے ایک سا ل پہلے۲۷ رجب کی را ت پیش آیا ۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن ِ مجید اور مستند احا دیث میں ملتا ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل جس کو سورۂ اسرا ء بھی کہا جا تا ہے اس کے آغا ز میںاللہ تعالیٰ ارشاد فرما تے ہیں ’’سُبْحٰنَ الَّـذِىٓ‘‘ یعنی پا ک ہے وہ جو لے گیا ۔ یہ آیت شریفہ اسراء کے ثبو ت پر نص ہے۔ قرآن ِ مجید کے اس اسلوب سے ظا ہر ہورہا ہے کہ یہ بہت بڑا اور غیر معمو لی واقعہ ہے جو رب ِ کائنا ت کی غیر معمولی قدرت ِ کا ملہ سے رونما ہوا ہے ۔ ظا ہر ہے خوا ب میں کسی شخص کا اس طرح دیکھ لینا کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ اسے بیان کرنے کے لئے اس تمہید کی ضرورت ہو کہ ’’ تمام کمزوریوں اور نقا ئص سے پاک ہے وہ ذات جو لے گئی‘‘اس کے بعد اللہ تعا لی فرماتے ہیں ’’اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰى‘‘ (یعنی اللہ تعالیٰ) ایک رات اپنے بندے (محمدؐ) کو لے گئے مسجد ِ حرا م (یعنی مکہ مکرمہ ) سے مسجد ِ اقصی ٰ تک ‘‘اسریٰ کے معنی رات کو چلانے یا لے جا نے کے ہیں۔ ’’ عبد‘‘ (بندہ) جسم و روح کے مجموعہ کو کہتے ہیں۔ ’’ لَيْلًا ‘‘ سے مرادرات کا مختصرحصہ۔ اسراء و معرا ج دونوں روح اور جسد مبا رک کے ساتھ حالتِ بیداری میں ایک ہی را ت کے ایک حصہ میں وقوع پزیر ہوئے ہیں۔ ’’ اَلَّـذِىْ بَارَكْنَا حَوْلَـهٗ‘‘ جس کے ماحول کو اس نے ( یعنی اللہ تعالیٰ نے) برکت دی ہے ۔ یہ برکت مادی بھی ہو سکتی ہے اور روحا نی بھی ۔ ملک شام و فلسطین میں صا ف و شفاف نہریں بہتی ہیں زیتون کے درخت کثرت سے ہوتے ہیں اس کے علاوہ انار ‘ کھجور ‘ انگور اور آلو بخارے کثر ت سے ہوتے ہیں ۔ روحا نی برکت یہ ہے کہ یہا ں کئی انبیاء جن کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا مبعوث ہوئے اور اکثر انبیاء کے مرقد یہاں پر ہیں۔
اسراء و معراج کے واقعہ کی تفصیلات (۲۸)ہم عصر راویوں کے ذریعہ ہم تک پہنچتی ہیں۔ جن میں سات راوی وہ ہیں جو خود معراج کے زمانے میں موجود تھے ۔ اور (۲۱) صحابہ کرام نے خود نبیؐ کی زبانِ مبا ر ک سے اس واقعہ کی تفصیلا ت سنی ہیں۔اللہ تعالی نے اس واقعہ کی غرـ ض و غایت یہ ارشا د فرمائی ’’لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا‘‘ تاکہ اسے(یعنی محمدؐ کو) اپنی کچھ نشانیوں کا مشا ہدہ کرائیں‘‘۔اِنَّہٗ ھُوَالسَّمِیْعُ البَصِیْرُ ۔ حضر ت محمد رسول اللہ ﷺ کو منصب نبوت سے سرفرا ز ہوئے تقریباً (۱۲)سال گذر چکے تھے۔ گویا اس وقت آپ ؐ کی عمر مبا رک (۵۲) سال ہوچکی تھی۔ آپ ؐ حضرت علی ؓ کی ہمشیرہ ام ہا نی کے مکان جو صفا و مروہ کے درمیان تھا استرا حت فرما رہے تھے۔ حضرت جبرئل علیہ الصلوٰۃ والسلام ستر ہزار فرشتوں کے سا تھ تشریف لائے اور آسمان نبوت کے نیّر اعظم احمد مجتبیٰ ‘محمد مصطفی ﷺ کو ادب و حکمت کے سا تھ نیند سے جگا یا ۔ اس طرح جگانا خود اپنی جگہ جسمانی معراج پر دال ہے ۔
چنا نچہ اسراء کا سفر حضر ت جبرئیل ؑ کے ہمرا ہ شروع ہوا ۔ پہلی منزل مدینہ منورہ تھی جہاں اُتر کرآپؐ نے نمازادا فرمائی حضرت جبر ئیل ؑ نے بتا یا کہ آپ ؐ یہا ں ہجرت کرکے آئیں گے ۔ دوسری منزل طور سینا ء تھی جہا ں اللہ تعا لی ٰ حضرت مو سیٰؑ سے ہمکلام ہوئے تھے۔ تیسری منزل بیت اللحم تھی جہا ں حضرت یحیی ؑ پیدا ہوئے تھے ۔ چوتھی منزل بیت المقدس تھی جہا ں آپ ؐ کا براق سے سفر اختتام کو پہنچا ۔بیت المقدس سے آسمانوں اور عرش بریں کے سفر کو معراج کہا جا تا ہے ۔ نبی کریمؐ نے ارشا د فرما یا عُرِجَ بِهٖ إِلَى السَّمَاءِیعنی مجھے آسمانو ں کی طرف لے جایا گیا ۔ عربی میں سیڑھی کو معراج کہتے ہیں ۔ اور معرا ج کا لفظ عروج سے بنا ہے ۔ جس کے معنی بلندی کے ہیں ۔ حضرت جبرئیل ؑ آپ ؐ کو آسمان کی طرف لے چلے۔ اسی مناسبت سے اس واقعہ کو معرا ج النبیﷺ کہتے ہیں۔ سائنس اور ٹکنالوجی جتنی ترقی کرتی جائے گی معراج النبی ؐ کی واقعہ کو سمجھنا اتنا ہی آسان ہوتا جائیگا ۔