معمولی بات پر خون خرابہ، قتل کے واقعات، سماج ، پولیس و علماء کیلئے لمحہ فکر

   

اِسلامی تعلیمات سے دُوری پر قوم تباہی کا شکار ، خطبہ جمعہ میں اخلاقیات ، اُخوت ، رواداری پر خطبات کی ضرورت

حیدرآباد۔ 11 جولائی (سیاست نیوز) شہر حیدرآباد میں آئے دن قتل کے واقعات خطرناک رجحان کی طرف اشارہ کررہے ہیں، معمولی بات پر ذاتی دشمنی اور پرانی خصومت کے سبب ایک دوسرے کا قتل کردیا جارہا ہے، بالخصوص پرانے شہر میں ایسے واقعات آئے دن پیش آرہے ہیں۔ نہ صرف پولیس کی چوکسی اور موجودگی کو چیلنج ہے بلکہ علمائے کرام و مشائخین و رہنماؤں کیلئے بھی ایک سوال ہے۔ ایک شخص کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دینے والے مذہب اسلام کے ماننے والے ایک دوسرے کو ’’گاجر مولی‘‘ کی طرف کاٹ رہے ہیں۔ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ پولیس بھی اب ان واقعات پر قابو پانے میں ناکام ثابت ہورہی ہے۔ آئے دن کارڈن سرچ (تلاشی مہم) اور فرینڈلی پولیسنگ کے نام پر عوام میں موجود رہنے کا دعویٰ کرنے والی سٹی پولیس آخر کیا وجہ ہے کہ عوام کے درمیان سماج کو تباہ کرنے والے واقعات پر کنٹرول نہیں کر پارہی ہے۔ مسلم سماج میں پھیل رہی اس بدامنی کا آخر کون ذمہ دار ہے۔ یہاں ایک دانشور قوم کے طور پر علماء برداری کو اب ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔ اخلاقیات کو اولین ترجیح دینے والے مذہب اسلام میں جو عداوت، بغاوت، بغض، برائی، بے حیائی سے دُور رہنے کی تعلیم دیتا ہے، آج اُسی سماج کا نوجوان طبقہ اسلامی تعلیمات سے دُور تباہی کے دہانے پر آپہونچا ہے۔ علمائے کرام کو چاہئے کہ وہ نمازِ جمعہ کے خطابات میں اخلاقیات، اُخوت، مذہبی رواداری اور آپسی بھائی چارہ کی تعلیمات پر عمل آوری کیلئے زور دیں بلکہ اس دانشور نے کہا کہ بستی اور محلوں میں مساجد کمیٹیوں کو علماء کی نگرانی میں میں بستی کے نوجوانوں اور نونہالوں کی تربیت پر توجہ دینے کیلئے تحریک چلانا ہوگا، جہاں تک جرائم پر قابو پانے کیلئے پولیس کی حکمت عملی کا سوال ہے۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس خود نہیں چاہتی کہ پر آئے شہر میں آپسی قتل کی وارداتیں کم ہوں اور شہر میں بے چینی قائم رہے۔ اب جبکہ شہر میں مسلسل تہواروں کا سلسلہ رہے گا، لہذا ایسی صورت میں پولیس کو غیرمعمولی مستعدی سے کام کرنا ہوگا، لیکن ان حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا چونکہ پولیس میں اطمینان کی صورتحال پائی جاتی ہے۔ جو خطرناک رجحانات اور سنگین نتائج کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ شہر میں سیاسی ماحول تہواروں کے سیزن سے اپنی گاڑی کیلئے ایندھن جمع کرنا ہے اور انتخابی نتائج کے بعد سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں میں تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔ اس دوران شہر میں اپنا دبدبہ بنانے اور شہر سے پوری ریاست کی سیاست پر اثرانداز ہونے کیلئے بی جے پی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اور ہر چھوٹے واقعہ کو اپنے ڈھنگ سے دیکھتے ہوئے موافق حالات میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ ان سب حالات کا جائزہ لینے والے قوم کے ایک دانشور نے تشویش ظاہر کی ہے اور اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ان تمام واقعات کے مضر اثرات کا نقصان صرف مسلم سماج ہی کو برداشت کرنا پڑے گا۔ چوکس و چوکنا رہنے والی ملک میں منفرد ریاست کی شاندار پولیس کا لقب حاصل کرنے والی سٹی پولیس ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خود ان حالات پر قابو پانا نہیں چاہتی یا پھر کمشنر پولیس کا ماتحت عہدیداروں پر کنٹرول نہیں رہا۔ ان حالات کے درمیان مقامی قائدین جو عوام کے درمیان رہتے ہیں، ان افراد کو بھی اپنی سماجی اور ملی ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا اور عوام کے درمیان رہتے ہوئے سماجی برائی کو مٹانے اور قوم و ملت کی تعمیر میں اپنا رول ادا کرنا ہوگا بلکہ سیاسی فائدے کی خاطر انسانی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے کی بالراست پالیسیوں سے گریز کرتے ہوئے عوام میں محبت کا ماحول پیدا کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے اقدامات کرنا چاہئے، ورنہ ایسے قائدین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنا انجام یاد رکھیں۔ بہتر اور پُرسکون سماج کی خاطر سماج میں مقام رکھنے والے علمائے کرام، مشائخین عظام ، ائمہ کرام اور سیاسی قائدین کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی اور سماج میں برائی و جرائم کے خاتمہ کیلئے معمور پولیس کو اپنے وجود کا احساس دلانا ہوگا۔