معیشت بڑھ گئی، فی کس آمدنی کیوں نہیں؟

   

رویش کمار
مودی حکومت پارٹ ۔ 2 کا پہلا بجٹ آچکا ہے۔ انتخابات ختم ہوچکے، لہٰذا بجٹ میں جدت کم ہے۔ یہ ایک پیام بھی ہے کہ اگر حکومت کی معاشی سرگرمی کو سمجھنا ہو تو اسے بجٹ سے ہٹ کر ضرور دیکھنا چاہئے۔ بجٹ میں اُن کیلئے تقریر بھی ہے جو صرف بجٹ میں دکھائی دیتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ بجٹ جیسے تفصیلی دستاویز کو صابن، تیل کی قیمتوں میں کمی بیشی یا حکومتی پالیسیوں پر خرچ ہونے والی رقم کے اعتبار سے دیکھنا چاہئے۔ وہ حصہ بھی دیکھنا چاہئے جو وزیر فینانس نرملا سیتارمن نے نہیں پڑھا۔ جو اس میں ماہر ہے وہ بین السطور کو پڑھ لیں گے۔
وزیر فینانس نے کہا کہ رواں مالی سال ہندوستانی معیشت کی جسامت 3 ٹریلین ڈالر ہوجائے گی۔ موجودہ طور پر اس کی قدر 2.7 ٹریلین ڈالر ہے۔ 55 برسوں میں ہندوستان کی معیشت کی قدر 1 ٹریلین ڈالر تھی۔ گزشتہ پانچ برسوں میں حکومت نے اس کی جسامت میں 1 ٹریلین ڈالر کا اضافہ کیا ہے ۔

ٹریلین ڈالر کی معیشت؛ یہ ایک نیا خواب ہے لیکن یہ ایک نئی پیمائش بھی ہے۔ کیا ہم دانستہ طور پر اس پیمائش کو نعروں میں بدل رہے ہیں تاکہ دیگر گوشے منظر سے غائب ہوجائیں ؟ وزیر فینانس نے 55 سال کی بات کہی، کیا 55 سال سے تقابل کرنا درست رہے گا؟ وہ ہندوستان کو 1 ٹریلین ڈالر تک پہنچا سکے، لیکن ہم نے پانچ سال میں 9 ٹریلین ڈالر کا اضافہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وزیر فینانس نے نہ صرف سابقہ حکومتوں کو ایک قطار میں مسترد کردیا بلکہ اس بیان سے دنیا کی دیگر حکومتیں بھی نااہل قرار دی گئی ہیں۔
ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی معیشت کی جسامت 55 سال میں یعنی 1964ء میں 1.8 ٹریلین ڈالر تھی۔ 2014ء میں عالمی معیشت کی جسامت 79.29 ٹریلین ڈالر ہوگئی۔ موجودہ طور پر عالمی معیشت کی جسامت 87 ٹریلین ڈالر ہے۔ 1964ء میں جب عالمی معیشت کی جسامت آج کے ہندوستان سے کمتر تھی، آپ کس طرح یکایک کہہ سکتے ہو کہ 55 سال میں کچھ نہیں ہوا اور گزشتہ پانچ سال میں ہم نے سب کچھ کردکھایا ہے۔ وزیر فینانس نے کہا کہ آج ہندوستان کا مقام دنیا میں چھٹا ہے۔ پانچ سال قبل یہ مقام 11 واں تھا۔ جب عالمی معیشت 2 ٹریلین ڈالر نہیں تھی، تب 1964ء میں ہندوستان کی معیشت کی جسامت 56.48 بلین ڈالر تھی۔ اُس سال ہندوستان کا مقام دنیا میں 7 واں تھا۔ اُس سال ہندوستان نے کناڈا کو پیچھے چھوڑا تھا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، جاپان اور اٹلی کو ہندوستان سے برتر مقام حاصل تھا۔

55 سال قبل ہندوستان ساتویں مقام پر تھا۔ 2019ء میں چھٹے مقام پر ہے۔ اس کے باوجود آپ مطمئن ہیں لیکن تفصیلی طور پر نہیں کہتے ہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ 55 سال میں کچھ نہیں ہوا۔ دراصل گزشتہ 5 سال میں ہمیں اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔ یہ نہ بھولئے کہ آزادی کے وقت ہندوستان غریب ملک تھا۔ اُس کی معیشت خالی تھی۔ بے شک، آج ایسا نہیں ہے۔ لیکن ہمیں 55 سال اور 70 سال کا نعرہ کیوں استعمال کرنا چاہئے۔ کیوں نہ ہم آج فی کس آمدنی کو کسوٹی بنائیں؟
اگر ہندوستان نے اپنی معیشت کو 1.85 ٹریلین ڈالر سے پانچ سال میں 2.75 ٹریلین ڈالر بنانا ہے، تب فی کس آمدنی میں ہم نے کیا پیشرفت کی ہے؟ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے اعداد و شمار کے مطابق 1987ء میں انڈیا کا رینک دنیا میں فی کس آمدنی کے معاملے میں 142 تھا۔ 2014ء میں 169 رہا۔ ان اعداد وشمار سے ہماری پیشرفت کی سچائی دیکھی جاسکتی ہے۔
کیا ہمیں بتایا جارہا ہے کہ 2018ء میں گھانا، نائجیریا، نکاریگوا، سری لنکا جیسے ممالک فی کس آمدنی کے معاملے میں ہندوستان سے آگے ہیں؟ ہم فی کس آمدنی کی بات کیوں نہیں کرتے، جو ظاہر کرے گا کہ معیشت کی جسامت بڑھنے پر عوام کی آمدنی میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟ کیا انسان کی اب کوئی اہمیت نہیں رہی، سب کچھ انفراسٹرکچر ہوگیا ہے۔ کیا امریکی پروفیسرز نے اپنی کلاس میں فی کس آمدنی کے تعلق سے پڑھانا روک دیا ہے؟
ٹریلین ڈالر یا اس طرح کی باتیں سننے میں بڑی اور بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن کب تک ہم ہماری اقتصادی حقیقت کو چھپائیں گے؟ اس لئے تقریروں، نعروں پر نہ جائیے۔ بجٹ کے کاغذات کا آپ خود جائزہ لیجئے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ہم 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت بن جائیں گے لیکن کئی ماہرین معاشیات استفسار کررہے ہیں کہ آیا یہ 9 فیصد یا 8 فیصد جی ڈی پی ہوگی۔ پانچ سال میں معیشت کو دوگنا کرنے کیلئے 12 فیصد درکار ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ پانچ سال میں اگر 8 فیصد جی ڈی پی رہے تو معیشت 5 ٹریلین ڈالر ہوسکتی ہے۔ یہ کس طرح ہوگا؟ اس سوال پر حکومت امید، بھروسہ اور امنگ اور شاعری کے ذریعے جواب دیتی ہے۔

اس بجٹ میں کارپوریٹ ٹیکس اسٹرکچر میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ حکومت کارپوریٹ ٹیکس کو گھٹی کی راہ پر چل پڑی ہے۔ پہلے 250 کروڑ روپئے کے سالانہ کاروبار والی کمپنیوں کو 25 فیصد کارپوریٹ ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ اب 400 ملین ٹرن اوور تک کمپنیوں کو 25 فیصد کارپوریٹ ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ اس طرح ہندوستان کی 99.3% کمپنیوں کیلئے کارپوریٹ ٹیکس 25% ہوچکا ہے۔ صرف 0.7% کمپنیاں ایسی ہیں جن کو 30 فیصد کارپوریٹ ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ نرملا سیتارمن نے یہ نہیں کہا کہ 99.3% کمپنیوں کو 25 فیصد کے زمرے میں لانے سے حکومت کی وصولیات میں کس طرح کمی ہوگی۔
سابق میں وزیر فینانس ارون جیٹلی نے کارپوریٹ ٹیکس میں 99 فیصد کمپنیوں کیلئے کٹوتی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے نتیجے میں روزگار میں اضافہ ہوگا۔ ہمیں نہیں معلوم 7,000 کروڑ روپئے کی ٹیکس کٹوتی کے سبب سرکاری طور پر کس قدر روزگار بڑھا۔ 2 کروڑ روپئے سے کم کمانے والے لوگوں کے ٹیکس سلاب میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ ڈائریکٹ ٹیکس کی وصولی 78 فیصد کی شرح پر بڑھ چکی ہے۔ 2013-14ء میں ڈائریکٹ ٹیکس کی وصولی 6.38 لاکھ کروڑ روپئے تھی۔ 2018-19ء کے دوران یہ رقم 11.37 لاکھ کروڑ روپئے تک بڑھی ہے۔
میک اِن انڈیا پانچ سال تک نعرہ بنا رہا۔ اب اس سے بڑا نعرہ سامنے آیا ہے۔ وزیر فینانس نے کہا کہ وہ عالمی کمپنیوں کو دعوت دیں گی کہ وہ میگا مینوفیکچرنگ پلانٹس قائم کرسکتے ہیں۔ اس کیلئے بعض شعبوں کی حکومت نے نشاندہی کرلی ہے جو ہمارے لئے ’سن رائز اینڈ اڈوانس ٹکنالوجی‘ ہیں۔ ایسا کہا جارہا ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ کے سبب کئی کمپنیاں اپنی فیکٹریاں چین کے علاوہ کہیں قائم کرنا چاہتی ہیں۔ ہندوستان اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
ان دنوں ہندوستان کے تقریباً ہر گوشے میں آبی بحران ہے۔ بجٹ میں مطلع کیا گیا کہ حکومت آبی وسائل، ریور ڈیولپمنٹ اور گنگا کنزرویشن ڈپارٹمنٹ، ڈرنکنگ واٹر اینڈ سانٹیشن، واٹر پاور منسٹری کی مدد سے کام کرتے ہوئے 2024ء تک ہر گھرانہ میں آبی اسکیم کو ریاستوں کے ساتھ مل کر یقینی بنائے گی۔ وزیر فینانس نے کہا ہے کہ گھروں سے نکلنے والے ناپاک پانی کو صاف کرکے زراعت میں استعمال کیا جائے گا۔ اس کا کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں دیا گیا اور وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ کس طرح ہوگا، یہ بھی واضح نہیں کہ اس کا بجٹ کیا ہوگا۔
سیتارمن اس مرتبہ بجٹ کاغدات کو بریف کیس کے بجائے سرخ مخملی کپڑے میں لے کر پارلیمنٹ آئیں۔ معاشی مشیر اعلیٰ کرشنا مورتی سبرامنیم کا کہنا ہے کہ یہ ہندوستانی روایت ہے جو بتا رہی ہے کہ ہم مغربی افکار کی غلامی سے آزاد ہوچکے ہیں۔ یہ بیان ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے ٹوئٹ کیا ہے۔ کرشنا مورتی نے گزشتہ پانچ سال بریف کیس میں بجٹ کاغذات لانے کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے۔ پتہ نہیں ہم غلامی سے یہی سال آزاد ہوئے ہیں؟
ریلوے بجٹ میں اس شعبے میں 2030ء تک 50 لاکھ روپئے کی سرمایہ کاری ہوگی۔ نہ صرف یہ بلکہ پبلک سیکٹر کمپنیوں کو فروخت بھی کیا جائے گا۔ بجٹ میں یہ بھی تحریر کیاگیا سستی قیمتوں پر مکانات سرکاری ارضیات پر تعمیر کئے جائیں گے۔ وزارت اقلیتی امور کا بجٹ گزشتہ سال جیسا برقرار کھا گیا ہے۔
ravish@ndtv.com