معین آباد عصمت ریزی کیس کی متاثرہ لڑکی کو انصاف ملے گا؟

,

   

ٹی آر ایس لیڈر مدھو یادو کو بھی دشا عصمت ریزی کیس ملزمین کی طرح کیفر کردار تک پہونچانا ضروری ۔ عوام میں بے چینی

حیدرآباد۔ شہر کے مضافاتی علاقے ایسا لگتا ہے کہ انسان نما درندوں کی آماجگاہ بنتے جا رہے ہیں جہاں آئے دن عصمت ریزی اور قتل کے واقعات پیش آتے جا رہے ہیں۔ شہریان حیدرآباد ہی نہیں بلکہ ساری ریاست اور سارے ملک کے عوام کو دشا عصمت ریزی و قتل کیس ابھی بھولا نہیں ہے کہ اب مضافاتی علاقہ معین آباد میں ایک اور انسانیت سوز اور دردناک واقعہ پیش آیا جہاں برسر اقتدار جماعت ٹی آر ایس کے ایک لیڈر مدھو یادو نے ایک نابالغ کمسن لڑکی کی عصمت ریزی کرتے ہوئے اسے خود کشی پر مجبور کردیا ۔ چند ماہ قبل جو واقعہ دشا کے ساتھ پیش آیا تھا اب ایک اور کمسن لڑکی کے ساتھ بھی پیش آیا ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس واقعہ میں جو مدھو یادو ملزم ہے وہ ریاست میں برسر اقتدار جماعت سے وابستہ لیڈر ہے اور یہ بھی اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ وہ سیاسی اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے بچنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ حالانکہ جس وقت دشا عصمت ریزی کیس کے ملزمین کا انکاونٹر کیا گیا تھا اس وقت سوائے چند گوشوں کے سارے ملک کے عوام نے خیر مقدم کیا تھا اور یہ رائے عام ہوگئی تھی کہ عصمت ریزی کے ملزمین کے ساتھ اسی طرح کی کارروائی ہونی چاہئے ۔ تو کیا اب یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ ایک نابالغ اور کمسن لڑکی کے ساتھ اسی طرح کی سنگین اور گھناونی حرکت نے والے درندہ مدھو یادو کا انکاونٹر نہیں ہونا چاہئے ؟ ۔

کیا جس طرح کا انصاف دشا کے ساتھ کیا گیا تھا اسی طرح کا انصاف معین آباد عصمت ریزی کیس کی متاثرہ لڑکی کے ساتھ نہیں ہونا چاہئے ۔ ایک بات ایسے معاملات میں دیکھی جا رہی ہے کہ کسی کسی کیس کو میڈیا میں پوری شدت کے ساتھ اچھالا جاتا ہے اور کسی معاملہ میں میڈیا کی جانب سے مکمل سردمہری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔ معین آباد عصمت ریزی کیس میں بھی ایسا ہی دکھائی دے رہا ہے ۔ جس طرح دشا کیس میں برہمی اور بے چینی کا اظہار کیا گیا تھا اس طرح کی برہمی اور بے چینی کا میڈیا میں اظہار نہیں کیا گیا لیکن معین آباد میں مقامی سطح پر عوام میں زبردست برہمی پائی جاتی ہے اور وہ اس بات پر مصر ہیں کہ اس عصمت ریزی کے ملزم مدھو یادو کو بھی اس انسانیت سوز حرکت پر کیفر کردار تک پہونچایا جائے اور اس کا بھی انکاونٹر کیا جائے ۔ جب تک عصمت ریزی اور قتل کے ملزمین کے ساتھ یکساں نوعیت سے کارروائی نہیں ہوتی اور ملزمین کو کیفر کردار نہیں پہونچایا جاتا اس وقت تک دشا عصمت ریزی کیس کے ملزمین کی طرح کے کمزور ملزمین کو تو سزا مل جائے گی لیکن معین آباد عصمت ریزی و قتل کیس کے ملزم کی طرح کے سیاسی اثر و رسوخ کے حامل ملزمین خود کو بچانے میں کامیاب ہوتے رہیں گے ۔ اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو خواتین و لڑکیوں کی عفت و عصمت کو تار تار کرنے والے درندے سماج میں موجود رہیں گے ۔ ایسے درندوں کو بلا کسی امتیاز اور سیاسی وابستگی کا خیال کئے بغیر شرمناک سزائیں دینا ضروری ہے تاکہ سماج کو ایسے درندوں سے پاک کیا جاسکے اور نہ کہیں دشا عصمت ریزی کیس جیسا کیس ہو اور نہ کہیں معین آباد عصمت ریزی کیس جیسا کیس ہونے پائے ۔