مغربی اترپردیش میں ایس پی کے پھیلاؤ میں رخنہ کی امید پر جاٹوں کے ذہنوں میں بی جے پی جال تیار کررہی ہے۔ یہ ان عجیب وغریب ستم ظریفیو ں میں سے ایک ہے جو آسانی کے ساتھ توجہہ حاصل کرلیتی ہے۔
اترپردیش کے 2017اسمبلی انتخابات میں ’محض ایک سیٹ‘ پر جیت حاصل کرنے والی راشٹریہ لوک دل کی مغربی اترپردیش میں 58سے 53سیٹوں پر جیت حاصل کرنے والی بی جے پی کی جانب سے پرجوش طریقے اس کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔
اس سچائی کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے کہاکہ آر ایل ڈی سربراہ جیانت چودھری نے پہلے پی سماج وادی پارٹی سے سیاسی اتحاد کرلیاہے‘ غیر جمہوری اور غیر فطری طریقے مجموعی طور پر بی جے پی 10فبروری کو ہونے والی پہلے مرحلے کی رائے دہی کے لئے جیانت چودھری کو اپنی طرف کھینچنے کی کوششیں کررہی ہے۔
جاٹوں کی سرزمین کے یہ حلقہ جات اترپردیش میں سات مرحلوں میں ہونے والے انتخابات میں کلیدی رول رکھتے ہیں۔ان حلقوں میں کسانوں کے خاندانوں کابڑااثر ہے جو 14ماہ طویل احتجاج میں زندگیاں اورپیسے دونوں گنوائے ہیں جس میں 700سے زائد کسانوں نے اپنی جان دی ہے۔
کویڈ 19اور اس کو حکومت نے مناسب انداز میں نمٹنے کاکام نہیں کیااور ان گیارہ اضلاعوں بشمول شاملی‘ مظفر نگر‘ میرٹھ‘ باغپت‘ غازی آبادی‘ ہاپور‘ گوتم بدھ نگر(نوائیڈا)‘ بلند شہر‘ علی گڑھ‘ ماتھرا اور اگرہ میں درد اور کرب کاسبب بنا ہے۔
اپنے آخری کوشش میں بدحال بی جے پی نے جاٹ کمیونٹی کے ذریعہ اپنے قدیم ہندو پولرائزیشن کی کوششیں اس سونچ کے ساتھ کی کہ مغربی اترپردیش میں مسلم گجر ووٹ بینک کے مقابلے میں اس کو تیار کریں گے اور سامنے رکھیں گے۔
بی جے پی کو اسبات کا بھی یقین ہے کہ جیانت اور اکھیلیش کے ایک ساتھ ہونے سے یہ ممکن نہیں ہے او ریہی وجہہ ہے کہ وہ اس اتحاد کو کسی بھی قیمت پر توڑنا چاہا رہی ہے۔
لہذا کوئی اور نہ نہیں بلکہ بی جے پی کے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس اہم کام کو خود پر لیاہے تاکہ جیانت چودھری کو لالچ دیں‘ خوش کریں یاکم ازکم آخر کارانہیں متنبہ کریں تاکہ ان کے اس اتحاد کی وجہہ سے ہونے والے نقصانات کوبیان کریں۔
چانکیہ ہونے کا دعوی کرنے والے شاہ نے پہلے تو جینت کے والد سابق انجہانی وزیراعظم ہند چودھری چرن سنگھ‘ اور ان کے والد آر ایل ڈی کے بانی چودھری اجیت سنگھ کے متعلق بات کرتے ہوئے فیملی کارڈ کھیلا اور ان کی فیملی اور پارٹی کے ساتھ ان کے تعلقات بتائے اور زراعی کمیونٹی کے ساتھ ان کی جستجو کا بھی اظہار کیا۔
اس کا جواب جیانت نے دیا کہ پہلے ہی انہوں نے اس بات کا فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ چار آنا کے سکہ کی طرح دوسرے رخ کو بھرنے والے جیسے نہیں ہیں۔ شاہ نے حوصلہ نہ ہارنے کی کوشش جاری رکھی۔
انہوں نے ان حلقوں کے گلیوں اور کوچوں کا سفر کیااور اس بات کا اپنی انتخابی مہم کے دوران عوام اور میڈیا میں پیش کرنا نہیں بھولا کہ جیانت ایک معصوم بچہ ہے جو اچھے بچے کی سند رکھتا ہے مگر سیاسی اتحاد کے لئے ایک غلط گھر میں ہے۔
اپنی سیاسی زمین پر اضافہ کرتے ہوئے ان دنوں شاہ ان حلقو ں میں 2013کے متعلق لوگوں کو یاد دہانے کرارہے ہیں‘ جب مظفر نگر فسادات رونما ہوئے تھے‘ او راس وقت سماج وادی پارٹی کی حکومت تھی اور اس نے کس طرح مبینہ اقلیتوں کی مدد کی تھی۔
آخر میں ہونا تو وہی ہے کہ مذکورہ 58سیٹوں پر ووٹ کیسے ڈالے جائیں گے یہ وقت ہی بتائے گا‘ فی الحال ایک چیز تو یقینی ہے‘ کسانوں کا احتجاج‘ بی جے پی نے خراب انداز میں اس احتجاج سے نمٹا‘ وباء‘ سماجی اورذات پات کے معاملات پارٹی کے لئے بہت زیادہ ووٹوں کے نقصان کا سبب بنیں گے۔
مثبت پہلو یہ ہے کہ نہ صرف58بلکہ ملک میں سب سے زیادہ آبادی 22کروڑ والی ریاست کی403سیٹوں پر ’انسانی‘ پہلوکو منظرعام پرلانے میں یہ مدد گار ثابت ہوگا