مغربی بنگال میں بی جے پی کے حربے

   

Ferty9 Clinic

مرکز کی حکمراں پارٹی بی جے پی نے مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کے قائدین کو اپنی صف میں شامل کر کے ایک غلط قدم اٹھایا ۔ جب پارٹی میں شامل ہونے کے لیے ارکان کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تو وہ اندر ہی اندر خوف زدہ ہونے لگی ۔ اس لیے پارٹی نے فیصلہ کیا کہ اب وہ مزید کسی بھی لیڈر کو شامل نہیں کرے گی ۔ مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنرجی کا اقتدار چھین لینے کی غرض سے بی جے پی نے غیر اصولی سیاسی حربے اختیار کئے ہیں ۔ آج ممتا بنرجی کو جن سیاسی انحراف پسندیوں کا شکار ہونا پڑا ہے وہ بھی انہی کی پیدا کردہ یا اختیار کردہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے ۔ مغربی بنگال میں تقریبا 36 سال تک حکومت کرنے والی بائیں بازو پارٹیوں میں پھوٹ ڈالنے کی جو مہم چلائی گئی تھی اس کے نتیجہ میں ریاست مغربی بنگال اب نظریاتی ، سیاسی اور سماجی طور پر منقسم ہوگئی ہے ۔ کانگریس کا وجود نہیں کے برابر ہے ۔ بائیں بازو پارٹیوں کا دور دور تک پتہ نہیں ۔ مغربی بنگال میں اس وقت بی جے پی اور ٹی ایم سی کے درمیان راست ٹکراؤ ہے ۔ ماہ مئی میں منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنی اپنی صفوں کو مضبوط کرنا شروع کیا ہے ۔ لیکن مقابلہ صرف دو پارٹیاں ٹی ایم سی اور بی جے پی میں ہونے جارہا ہے تو مرکزی اقتدار رکھنے والی بی جے پی اپنی ساری توانائیاں جھونک کر مغربی بنگال کا اقتدار حاصل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے ۔ ٹی ایم سی کے کئی قائدین کو پارٹی میں شامل کرلینے کے بعد اچانک اس نے یہ فیصلہ کیوں کیا کہ آئندہ وہ کسی بھی لیڈر کو شامل نہیں کرے گی تو یہ غور طلب بات ہے ۔ سیاسی قائدین کا دل بدل مزاج بھی خطرناک ہوتا ہے جو لوگ پارٹیاں بدلنے کے عادی ہوتے ہیں وہ ایک دن کہیں کے نہیں رہتے ۔

بی جے پی میں ویسے تو مغربی بنگال کی ہر سیاسی پارٹی کا لیڈر شامل ہوچکا ہے ۔ دوسری پارٹیوں کے منحرف قائدین کو لے کر بی جے پی اقتدار تک پہونچنا چاہتی ہے تو اس کا یہ اقتدار مضبوط نہیں ہوگا ۔ دیر سے شاید بی جے پی کو ہوش آیا ہے اس لیے اس نے اب مزید قائدین کو پارٹی میں شامل کرنے سے گریز کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اب تک بی جے پی میں جتنے قائدین شامل ہوئے ہیں ان کا نظریہ سیاسی مزاج اور سماجی رتبہ بی جے پی سے ہم آہنگ نہیں ہوتا لیکن اقتدار کی لالچ نے ان تمام قائدین کو بی جے پی کی چوکھٹ تک گھسیٹ لایا تھا ۔ اسمبلی انتخابات کے لیے اگر ان قائدین کو اسمبلی ٹکٹ نہ ملے تو پھر یہاں سے بھی ناراضگیوں کا آغاز ہوگا ۔ مغربی بنگال میں اپنی اُدھار سیاسی طاقت حاصل کرنے کوشاں بی جے پی کو یہی قائدین نقصان پہونچائیں گے ۔ جنہیں بی جے پی نے بِڑے آرزو سے دوسری پارٹیوں میں پھوٹ ڈال کر شامل کیا تھا ۔ بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی خود اس کے گلے کی ہڈی بن جائے گی ۔ سال 2019 سے مغربی بنگال کے موجودہ ارکان اسمبلی سے ضلع صدور ، بلاک سطح کے لیڈروں نے بی جے پی سے وفاداری کی ہے لیکن ان کی یہ سیاسی وفاداری یا دل بدل خود ان کیلئے نقصان دہ ہے اور بی جے پی کے لیے بھی یہ سیاسی خسارہ کے مترادف ہے ۔ کیوں کہ بی جے پی نے دیگر پارٹیوں کے جن چنندہ سیاستدانوں کو شامل کیا ہے یہی لوگ وقت آنے پر یا ٹکٹ سے محرومی پر بغاوت کریں گے ۔ حکومت کی کامیابی ایک حکمت ہے اور سیاست ایک فن ہے ۔ اگر حکمراں پارٹی اس حکمت سے اور لیڈراں اس فن سے واقف نہ ہوں تو دونوں کی کامیابی ممکن نہیں ۔ مغربی بنگال کے سیاسی میدان پر بی جے پی کسی بھی حد تک جاسکتی ہے ۔ لیکن اس کی اختیار کردہ حکمت عملی خود اس کے گلے پڑ سکتی ہے کیوں کہ ماضی میں بھی ایسے سیاسی واقعات ہوئے ہیں ۔ جن پارٹیوں نے حکمت کے بغیر صرف سازشوں کے ذریعہ اقتدار حاصل کیا ہے وہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکیں ۔ جو لیڈر یا پارٹی صرف اپنی ترقی اور اپنی خوشحالی چاہے وہ اس کی ترقی یا خوشی دیرپا نہیں رہتی ۔۔