مغلوں کے بارے میں یوگی کیوں غلط ہیں؟

   

کرن تھاپر
مغل بادشاہ ہمارے ہیرو کیسے ہوسکتے ہیں؟ یہ سوال چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ نے گزشتہ ہفتہ کیا اپنے سوال کے معنی و مطلب کو واضح کرنے کے لئے انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی چیز جو غلامانہ ذہنیت کو ظاہر کرتی ہے وہ ان کی حکومت کے لئے ناقابل قبول ہے۔ آج میں یوگی آدتیہ ناتھ کے اس سوال کا جواب دینا چاہوں گا۔ سب سے پہلے میں چاہوں گا کہ وہ خود اپنے آپ سے چند سوالات کریں اور سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ کسی چیف منسٹر کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ ہم سے یہ سوال کریں کہ ہمارے ہیرو کون ہیں؟ ایک چیف منسٹر کو ہم پر حکمرانی کی اتھاریٹی ہوسکتی ہے لیکن ہمارے اقدار کو طے کرنے اور ہمارے نظریات کو ایک شکل دینے کا اسے کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ ان کی ضد ہٹ دھرمی اور تعصب ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہمیں یہ بتائیں کہ ماضی کے کس حکمراں کو عظیم تصور کریں اور کس حکمراں کو نظرانداز کردیں، جبکہ اس کا حق صرف اور صرف عوام کو پہنچتا ہے کسی چیف منسٹر کو نہیں کہ وہ دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرے۔
اگرچہ میں یوگی کو نہیں جانتا اس کے باوجود ایک قدم آگے بڑھوں گا۔ مجھے شبہ ہے کہ یوگی کا سوال تعصب یا پھر لاعلمی یا جہالت کا نتیجہ ہے یا پھر کہ دونوں وجوہات بھی ممکن ہیں۔ اگر میں صحیح ہوں تو یہ نہ صرف ایک چیف منسٹر کے لئے بدبختانہ ہے بلکہ ان کی جہالت اور لاعلمی کو ظاہر کرتا ہے۔ یوگی کے سوال پر میرا یہی جواب ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں عظیم حکمران مغل بادشاہ اکبر یا پھر میں ان کا پورا نام استعمال کروں گا ابو الفاتح جلال الدین محمد اکبر ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہو کہ کئی ایسے لوگ ہیں جو موریائی راجہ اشوک کو عظیم حکمراں مانتے ہیں جس طرح اکبر کو اکبر اعظم کہاجاتا ہے اسی طرح یہ لوگ اشوک کو اشوک اعظم کہتے ہیں۔ اس موریائی راجہ نے 18 صدی قبل حکومت کی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اکبر کے برابر ہوں یا تاریخی طور پر اکبر سے بالاتر ہوں لیکن میں اس سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ اکبر اعظم کلنگا کے مقام پر ایک لاکھ اموات کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

اب یوگی آپ سے میں اکبر کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ ایرا مکھوتی نے اپنی تازہ ترین اور دلائل سے بھرپور ایک بہترین کتاب اکبر دی گریٹ لکھی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ 16 ویں صدی میں اکبر نے جو حکمرانی کی ہے اُس وقت اس کرۂ ارض پر سب سے بہترین حکمرانی ان ہی کی تھی۔ ان کی سالانہ آمدنی کا تخمینہ 100 ملین پاؤنڈس لگایا گیا ہے اور وہ دنیا کے دولت مند ترین حکمرانوں سے بہت آگے تھے لیکن ان کی دولت یا ان کی وسیع و عریض مملکت نے انہیں اکبر اعظم نہیں بنایا بلکہ ان کی حیرت انگیز شخصیت کے باعث ہی وہ اکبر اعظم بن کر ابھرے۔ اکبر کا طرز حکمرانی اور ان کی تحریک اتحاد اپنے وقت کی منفرد تحریک تھی۔ وہ تمام مذاہب کے بارے میں یہ یقین رکھتے تھے کہ یہ تمام کے تمام مساویانہ طور پر صحیح ہیں یا مساویانہ طور پر ایک واہمہ ہیں۔ مکھوٹی لکھتی ہیں کہ اکبر سورج کی پوجا کیا کرتے تھے، منتر جاپتے تھے اور آگ کی پوجا کرتے تھے ساتھ ہی روزوں کا اہتمام بھی کرتے۔ انہوں نے اپنے چھوٹے فرزند مراد کو تعلیم کے لئے عیسائی مذہبی رہنما کے حوالہ کیا تھا اور مراد نے تثلیث یا کراس کے بارے میں پڑھا اور سبق کے شروعات میں عیسو مسیح اور میری کے نام لئے۔ اکبر کی اور ایک انفرادیت یہ تھی کہ اس کے ہندو بیویوں کو مذہب تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

انہیں اکبر نے اپنے مذہبی رسومات پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دے رکھی تھی۔ اکبر نے غیر مسلم رعایا پر ان کے تحفظ کے لئے عائد کئے جانے والے جزیے کو منسوخ کیا، گاؤ کشی اور بڑے جانور کا گوشت کھانے پر امتناع عائد کیا۔ اکبر خود نہ صرف سبزی استعمال کرتا بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتا۔ مکھوٹی نے اپنی کتاب میں اکبر کو ایک ناقابل یقین شخص کے طور پر پیش کیا ہے جو ایک عظیم انسان ہے۔ ایک ایسا انسان جس نے اپنے اطراف و اکناف کے ماحول کو خود میں سمایا ہوا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اکبر نے ہمیشہ دھوتی زیب تن کی ہے اور دیوان عام میں جب وہ آتا تو اس کے پیشانی پر تلک اور کلائی پر راکھی ہوتی۔ یہ راکھی دراصل ایک برہمن نے اسے باندھی تھی۔ اگر آپ فتح پور سیکری میں تعمیر اکبر اعظم کے محل کی سجاوٹ کو دیکھیں گے تو اس میں اکبر اعظم کی فراخدلی اور وسیع الذہنی کی جھلک نظر آئے گی۔ اکبر کے حرم خانوں میں عیسو مسیح، میری اور عیسائی سنتوں پینٹنگس رکھی گئی تھیں۔ 1582 ء میں اس مغل حکمراں نے مہابھارت کا سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کروایا۔ بعد کے برسوں میں اس نے راماینا، راجہ ترنگنی ساتھ ہی نالا اور دمیانتی کی کہانی کا ترجمہ کروانے کا انتظام کیا۔ آپ کو جب یہ پتہ چلتا ہے کہ اکبر اسکول نہیں گیا اور عملی طور پر وہ ان پڑھ تھا تو اس پر بھی غیر معمولی حیرت ہوگی کیونکہ اس نے ایسے بے شمار کارنامے انجام دیئے، وسیع الذہنی و وسیع القلبی کا ثبوت دیا جو صرف ایک دانشور اور علمی شخصیت رکھنے والے حکمراں سے کی جاتی ہے۔ مکھوٹی کا یہ ایقان ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اکبر خسارہ توجہ کی کیفیت سے متاثر تھا۔ بعض مورخین نے دعویٰ کیا ہے کہ اکبر لکھنے پڑھنے کی اہلیت میں کمی سے متعلق بیماری کا شکار تھا۔

آئیے اب مجھے یوگی سے ایک اور سوال کرنے دیجئے۔ وہ سوال یہ ہیکہ کیسے ایک ایسا آدمی ہمارا ہیرو نہیں ہوگا؟ آیا وہ مسلمان تھا؟ اس لئے ہم اسے اپنا ہیرو نہیں مانتے اور خوامخواہ اس پر تنقید کرتے رہتے ہیں؟ یا اس لئے ہم اسے اپنا ہیرو نہیں مانتے کیونکہ اس کے دادا نے ہندوستان کو فتح کیا تھا؟ یہی وجوہات ہیں جس کے نتیجہ میں آپ یہ کہتے ہیں کہ مغلوں کو ہیرو قرار دینا دراصل غلامانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ مجھے تو حیرت ہوگی کہ وہ اس حقیقت یا منطق کو سمجھتے کے اڈیشہ کے عوام اشوک اعظم کو کوستے ہیں یا ہندوستان کے بدھسٹ کوشیا متھرا شنگھا کو صرف اس لئے ویلن تصور کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے بدھسٹوں کے آبا و اجداد کے خلاف ظلم و جبر کا ارتکاب کیا تھا۔ میں جانتا ہوں یوگی نے ایک سیاستداں کی حیثیت سے بات کی نہ کہ ایک عام آدمی کی حیثیت سے۔ اس کے باوجود وہ اس عقیدے کے پجاری ہیں جو ہم شیر کرتے ہیں۔

آیا یہ خیالات ہندو فکر کی نمائندگی کرتے ہیں؟ کیا وہ ہمارے عقیدے کی چمک میں اضافہ کریں گے؟ آیا وہ ہندوستانیوں کے لئے باعث فخر ہیں؟ یا بہت محب وطن ہیں؟ مجھے شبہ ہے اگر یوگی یہ قبول کریں کہ انہوں نے ایک بھیانک غلطی کی ہے اور مجھے تو اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ انہوں نے بھیانک غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔