میرٹھ۔ لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے الزاماتکے پیش منظر مقامی نوجوانوں کے ہاتھوں ایک کشمیری طالب علم کی پیٹائی کے بعد باغپت کالج میں درجنو ں کشمیری طلبہ اپنے آبانی مقام کو یہ کہتے ہوئے منتقلی کی مانگ کررہے ہیں ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔
باغپت ضلع میں دہلی سہارنپور ہائی وئے کے قریب واقع سید واڑ انسٹیٹوٹ آف ہائیر ایجوکیشن میں منگل کی رات کو کالج کی ایک تقریب کے دوران یہ واقعہ پیش آیا۔
پولیس کے مطابق ایک کشمیری طلبہ پر لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا الزام لگائے جانے کے بعد کچھ مقامی لوگ انسٹیٹوٹ میں داخل ہوئے‘ مذکورہ طلبہ کے ساتھ مارپیٹ کے علاوہ ہاسٹل کی املاک کو بھی نقصان پہنچایا۔
ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے مذکورہ طالب علم عاقب حسین نے کہاکہ یہ حملہ ان کی علاقائی شناخت کی بنیاد پر کیاگیا ہے۔انہوں نے کہاکہ ”ہم نے یہاں خود کو کچھ ٹکنیکل ٹریننگ سے جوڑ لیاتھا۔ لڑکی سے چھیڑ چھاڑ کے الزام جھوٹے ہیں“۔
ایک او رکشمیری طالب علم محمد شکیل نے کہاکہ ”ہم صرف اس لئے نشانہ بنایاگیا ہے کیونکہ ہم کشمیری ہیں۔
ان غنڈوں نے ہم سے کہا ہے کہ وہ ہمیں یہاں ہاسٹل میں رہنے نہیں دیں گے اور وہ دوبارہ ائیں گے۔
وہ لوگ چاقوؤں اور پتھر وں سے لیز تھے جب ہمارے ہاسٹل میں داخل ہوئے او ریہاں پر توڑ پھوڑ مچائی۔ ہم او رہمارے ٹیچرس نے عاقب کو بچانے کی کوشش کی مگر وہ لوگ گھیرا بناکر کر حملہ کررہے تھے۔
پولیس کی آمد کے بعد ہی تمام حالات قابو میں ائے۔ ان لوگوں کی جانب سے ہمیں دھمکی دی گئی ہے لہذا ہم اپنا تبادلہ جموں کشمیر کے کسی مرکز میں کرالینا چاہتے ہیں۔
تاہم پولیس نے کہاکہ کشمیری نوعیت کا معاملہ پیش آنے میں کسی قسم کی کوئی غلط فہمی پیش ائی ہے۔
ایڈیشنل سپریڈنٹ آف پولیس باغپت راجیو سنگھ نے کہاکہ ”منگل کی رات میں واقعہ پیش آنے کے بعد ہم نے اورکالج انتظامیہ نے مل کر مشترکہ طور پر دونوں لوگوں کو آمنے سامنے بیٹھاتے ہوئے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی ہے۔
کسی کو کالج چھوڑ کر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہم طلبہ کی حفاظت کی ذمہ دای لیتے ہیں۔ اس معاملے میں اب تک کوئی ایف ائی آردرج نہیں کیاگیا ہے۔“