نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ قندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
ملک کی عدالت عظمی ( سپریم کورٹ ) نے ایک ملعون کی درخواست کو مسترد کردیا ہے جس نے قرآن مجید میں تحریف کی استدعا کی تھی ۔ اس ملعون کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ اکثر و بیشتر اپنی گندی اور بیہودہ زبان سے سماج میں اشتعال اور نفرت پھیلاتا رہتا ہے ۔ کبھی مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو کبھی کسی اور ریمارک کے ذریعہ عوام کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہونچاتا ہے ۔ اب تو اس نے قرآن مجید کی 26 آیات مبارکہ کو قرآن شریف سے ( نعوذ باللہ ) حذف کرنے کیلئے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی درخواست دائر کی تھی اور اسے تشدد اور تخریب کاری کی وجہ قرار دیا تھا ۔ سپریم کورٹ نے اس ملعون کی درخواست کو انتہائی غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے نہ صرف مسترد کردیا ہے بلکہ اس ملعون پر50 ہزار روپئے کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے اپنی اس رولنگ کے ذریعہ اس ملعون کے عزائم کو ملیامیٹ کردیا ہے اور ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں میں طمانیت کی لہر پیدا کردی ہے ۔ اس سے ملعون شخص کو اور اس کی قماش کے لوگوں کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح سے اس ملعون نے مسلمانوں کے جذبات جذبات کو مجروح کیا ہے اور آفاقی پیام میں مداخلت کی مذموم کوشش کی ہے اس پر اس کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ ملعون ہمیشہ ہی اسلام کی بیخ کنی کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے اور خود کو مسلمانوں کے ایک طبقہ کا حصہ قرار دیتا ہے ۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس طبقہ نے بھی اس ملعون سے قطع تعلق کردیا ہے اور یہ اتفاق رائے پیدا ہوگئی ہے کہ یہ شخص مسلمان ہی نہیں ہے ۔ اس کے عزائم ہمیشہ ہی اسلام کو نقصان پہونچانے کے اور اسلام کو غلط اور منفی پس منظر میں پیش کرنے کے ہی رہے ہیں۔ اس نے ہمیشہ ہی مسلمانوں کے تمام ہی فرقوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہونچائی ہے ۔ مقدس ہستیوں اور صحابہ کرام ؓ کی شان میں بھی گستاخی کی ہے ۔اس کی حرکات و سکنات سے ان شبہات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ ملعون اسلام دشمن طاقتوں کا آلہ کار بن کر کام کر رہا ہے اور خود بھی ان طاقتوں کا حصہ ہی ہے ۔
سپریم کورٹ نے نہ صرف اس کی بیہودہ درخواست کو مسترد کردیا بلکہ اس پر پچاس ہزار روپئے جرمانہ بھی عائد کرتے ہوئے دوسروں کیلئے بھی ایک مثال قائم کردی ہے ۔ سپریم کورٹ کا یہ اقدام مستحسن ہے اور اس نے سارے ہندوستان کے مسلمانوں کو مطمئن کردیا ہے ۔ تاہم حکومتوں کا جہاں تک سوال ہے انہیں ایسے عناصر کے تعلق سے نوٹ لینے کی ضر ورت ہے ۔ سماج میں بے چینی اور بد امنی پھیلانے والی طاقتوں اور ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ جو عناصر کسی بھی طرح سے اور کسی بھی انداز میں سماج میں بے چینی اور بدامنی پھیلا رہے ہیں وہ صرف کسی مذہب کے دشمن نہیں بلکہ ملک کے دشمن کہے جاسکتے ہیں۔ ملک کے امن اور سکون کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرنے کی پاداش میں ان کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے کیفر کردار تک پہونچانے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح مذہبی معاملات میں اظہار خیال کی آزادی کے نام پر کسی کی دلآزاری کی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی اسی طرح مذہبی معاملات کو محض اپنے خبیث خیالات کے ذریعہ عدالتوں تک گھسیٹنے کی کوشش کرنا اور عدالتوں کا وقت بھی ضائع کرنا قابل سزا جرم ہونا چاہئے ۔ مرکزی حکومت ہو یا پھر مختلف ریاستوں کی حکومتیں ہوں انہیں اس معاملہ کا سخت نوٹ لینے کی ضرورت ہے اور ایسے عناصر کی سرکوبی کے اقدامات کرنے چاہئیں جن کی وجہ سے سماج کا امن درہم برہم ہوتا ہے ۔
جس ملعون نے قرآن مقدس میں تحریف کی کوشش کی اور جس نے آیات مقدسہ کو حذف کرنے اور ان کی وجہ سے دہشت گردی کو فروغ ملنے کی بات کہی ہے وہ بیمار ذہن ہے اور اس نے اپنے ہر ہر عمل سے اپنی خباثت کا ثبوت دیا ہے ۔ کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہونچانے کا کسی بھی قیمت پر کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔ ایسی مذموم کوششیں کرنے والوں کیلئے سپریم کورٹ نے پچاس ہزار روپئے جرمانہ عائد کرتے ہوئے مثال قائم کردی ہے ۔ایسی خبیث ذہنیت کے حامل افراد کا سماجی مقاطعہ بھی کیا جانا چاہئے جو سماج کیلئے ناسور کے برابر ہیں۔ ان کو عدالت میں کھینچ کر مقدمات چلائے جانے اور انہیں سزائیں دیتے ہوئے دوسروں کیلئے بھی عبرت کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ بحیثیت مجموعی سپریم کورٹ کی رولنگ نے مسلمانوں کیلئے بڑی راحت فراہم کی ہے ۔
