ملک میں عدالتوں کی ضرورت ہے یا نہیں ؟

   

روش کمار

نوپور شرما کا سر قلم کرنے کا مطالبہ کرنے والوں کو عدالت کی ضرورت نہیں اور جاوید کے گھر کو بلڈوزروں سے منہدم کئے جانے پر خوش ہونے والوں کو بھی عدالت کی ضرورت نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کی عدالتیں اس بات کا فیصلہ کرلیں کہ اُن کی ضرورت ہے یا نہیں؟ کیا یہ اتفاق ہے کہ ہر مرتبہ کسی مظاہرے کے بعد یا پھر پرتشدد مظاہروں کے بعد کسی کو فوری طور پر اس کے پیچھے کارفرما اصل ذہن ہونے کا بہانہ بناکر اور غیرقانونی تعمیر کے نام پر اس کا گھر منہدم کرنا شروع کیا جاتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے ہم نے اس طرح بے شمار لوگوں کے گھر منہدم ہوتے، زمین دوز ہوتے دیکھے ہیں۔ تازہ ترین واقعہ پریاگ راج (الہ آباد) میں پیش آیا جہاں جاوید محمد کے مکان کو یہ کہتے ہوئے بڑی بے رحمی سے زمین دوز کردیا گیا کہ الہ آباد میں پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخی کے خلاف کئے گئے احتجاج کے پیچھے ان کا ہی ذہن تھا۔ مقامی حکام نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ گھر کی تعمیر کو غیرقانونی بتاکر اسے زمین کے برابر کردیا۔ حالانکہ جولائی 2018ء میں سپریم کورٹ نے انٹلیجنس سسٹم اور ضلع میں اس کی کارروائی کیلئے ایک تفصیلی رہنمایانہ خطوط جاری کئے تھے جس میں سینئر عہدیدار کا احتساب طئے کیا گیا تھا تاکہ ہجومی تشدد کو روکا جاسکے۔ سپریم کورٹ کے ان رہنمایانہ خطوط کے تحت اب تک کتنے سینئر عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی گئی۔ کتنے عہدیداروں کا احتساب کیا گیا؟ اب یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ کیا ملزم کا جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی مکان منہدم کرنے کیلئے غیرقانونی تعمیر کا بہانہ ایک نیا ہتھیار بن گیا ہے؟ کیا اس طرح کی ظالمانہ اور غیرقانونی کارروائیوں (جیسا کہ بعض ماہرین قانون نے ببانگ دہل کیا ہے) کے ذریعہ ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو پیغام نہیں دیا جارہا ہے کہ خبردار احتجاج نہ کرنا اگر احتجاج کروگے تو پھر جاوید محمد اور دوسروں کی طرح تمہارے مکانات بھی زمین کے برابر کردیئے جائیں گے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جب زرعی بلز کے خلاف کسانوں نے احتجاج کیا تب گودی میڈیا نے انہیں دہشت گرد لکھنا شروع کردیا۔ اب الہ آباد کے جاوید محمد کے مکان کو منہدم کئے جانے پر الہ آباد ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس گووند ماتھر نے کہا ہے کہ جاوید کا گھر غیرقانونی طور پر ڈھایا گیا ہے۔ دوسری طرف گودی میڈیا اور ایک طبقہ اس ظالمانہ و غیرقانونی کارروائی پر خوشی سے پھولے نہیں سمارہا ہے، جشن منارہا ہے۔ جیسے انہیں بہت بڑی کامیابی مل گئی ہو۔ ایک طرف ان لوگوں کی خوشیاں ہیں، دوسری طرف عام آدمی کے پاؤں میں تفتیش، تحقیقات، مقدمہ، ثبوت، شواہد، سماعت وکیل، دلیل فیصلہ اور اپیل کی بیڑیاں باندھ دی گئی ہیں جو انصاف کیلئے ادھر سے اُدھر مارا مارا پھر رہا ہے تاہم ان کے ووٹ سے بننے والی حکومت نے سب توڑ دیا ہے۔ اپنے لئے یہ بیڑیاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے بلڈوزر لاکر تکلیف دہ عدالتی طریقہ کار کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ انصاف کا مطلب عمل نہیں، ثبوت، طاقت اور حمایت نہیں۔ غیرقانونی تعمیرات کے خلاف بلڈوزر پہنچنے پر تشدد نہیں ہوتا۔ بلڈوزر آنے کے واقعہ کا بھی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تشدد کے بعد یہ بلڈوزر زیادہ تر واقعات میں کسی مخصوص کمیونٹی کے علاقہ تک پہنچتا ہے۔ کیا تشدد کا دوسرا رُخ نہیں؟ اب یہ آخری انصاف ہے اور یہ صحیح خبر ہے۔ مَیں آپ سب کے پھولے ہوئے سینوں کو دیکھ کر پھولے نہیں سما رہا ہوں۔ واقعی یہ دن مبارک ہو! ’’آپ‘‘ سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جن کی زندگی اچھی گذر رہی ہے اور آج کل کچھ غلط نظر نہیں آتا۔ ایسے لوگوں کو اس سے تکلیف کیوں ہوگی۔ شہر کو خوبصورت بنانے اور غیرقانونی تعمیرات کو ہٹانے کے نام پر بلڈوزروں کے ذریعہ غریبوں کے گھر اُجاڑ دیئے تب درد نہیں تھا۔ اب ایسا کیوں ہوگا۔ ویسے بھی یہ گھر پریاگ راج کے ایک جاوید محمد کا ہے، اس میں رہنے والے افراد کے نام پروین فاطمہ، سمیہ فاطمہ، آفرین فاطمہ ہیں۔ اگر آپ جذباتی ہورہے ہیں تو یہ بھی جان لیں کہ آفرین فاطمہ کا تعلق جے این یو سے ہے جس طرح آفرین فاطمہ کو گودی میڈیا نے مشکوک اور خطرناک قسم کی رپورٹنگ کے ذریعہ جوڑا ہے، اس کے بعد کچھ تحقیقات اور ثبوت درکار ہیں۔ جو لوگ ٹوئٹر پر اس گھر کو منہدم کئے جانے کا جشن منا رہے ہیں، اُن کی خوشی کسی اُصول کے تحت ہونے والی کارروائی سے نہیں بلکہ کسی اُصول کے تحت ان لوگوں کو بلڈوزر کرنے کی کارروائی پر ہے۔ ان لوگوں کے نام جن کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے، اس کے بعد بہت سے لوگوں کو یقین ہوسکتا ہے کہ ’’ان لوگوں کو سیدھا کرنے کا یہی طریقہ ہے‘‘۔ ان لوگوں کا مطلب جن کے نام جاوید اور فاطمہ ہیں۔ میڈیا میں ان لوگوں کیلئے کبھی ماسٹر مائنڈ، کبھی سہولت کار اور کبھی فسادی استعمال ہورہا ہے۔ پولیس نے سہولت کار کو بھی بلایا ہے، اگر یہ نا کہا جاتا تب بھی آپ جذباتی نہ ہوتے۔ میں آپ کو اتنا ہی جانتا ہوں، آپ آج کی کہانی میں نہیں ہیں۔ آج ہم اسکرین پر ہوں گے، بلڈوزر ہوں گے، ایک دن ہم نہیں ہوں گے، صرف بلڈوزر ہوں گے جیسے کئی چیانلس کی زبان اور اینکر کا انداز آپ سے بلڈوزروں کی طرح گڑگڑانے لگتا ہے، اس کے کچھ نمونے دیکھ لیں تو میری بات مان جائیں گے۔ ایک چیانل کے اسکرین پر لکھا تھا: ’’پتھر بازو! بلڈوزر گھر پر پتھر مارے گا، گھر گھر بلڈوزر، فسادی کانپتے ہیں‘‘ جہاں پتھر وہاں بلڈوزر، بلڈوزر حملہ یوگی کا پیغام تیار، گولی کیوں چلائی، مولانا کیسے بولے، یوگی راج میں شرپسندوں پر حملہ وغیرہ وغیرہ کچھ دن پہلے اس طرح کی بحثوں کو لے کر سوالات اُٹھ رہے تھے اور ان چیانلوں کی زبان سے بی جے پی نے اپنے ترجمانوں کو اس طرح کے مباحث سے دور رہنے کی ہدایت دی تھی اور کہا تھا کہ وہ ان چیانلس پر ہوتے ہوئے حکومت کی غریبوں کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر بات کریں، اس بحث کو ایک ہفتہ بھی نہیں گذرا تھا کہ اس قسم کی زبان اور بحث پھر سے لوٹ آئی، مسلمانوں نے یہ بھی تنقید کی کہ مولانا ہندو بمقابلہ مسلم بحث میں بڑی باتیں کررہے ہیں۔ ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو بھڑکا رہے ہیں اور اسی طرح کی بحث میں انہیں استعمال کیا جارہا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایک صحافتی اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا کو اس طرح کی بحث میں نہیں جانا چاہئے، چیانل نے اسے کاٹ دیا، تنقید ہندو بمقابلہ مسلم بحث پر ہوئی۔ ہندو مقابلہ مسلم بحث میں جانا منع تھا۔ پھر بحث مسلم مقابلہ مسلم ہوگئی۔ اس بحث میں ایک نہیں بلکہ آٹھ مسلمان آئے۔ ان مباحث میں کہا گیا، صحیح یا غلط اس پر بات نہیں کی جارہی ہے جو لکھا تھا اس پر بات ہورہی ہے۔ جب انصاف کا چہرہ بلڈوزر بن جائے تو اس کے جانے کے بعد صحیح اور غلط کی بحث کا کوئی فائدہ نہیں، وہ جاچکا ہے۔ عدالت ، انتظامیہ کے دلائل کو ثابت کرنے کی جگہ ہے، لیکن اب وہاں کوئی گھر نہیں ہوگا جسے انتظامیہ نے غیرقانونی تعمیرات ثابت کرکے گرا دیا ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے بتایا جارہا ہے کہ 10 مئی کو نوٹس وجہ نمائی دی گئی تھی جس کی سماعت 24 مئی کو مقرر تھی لیکن جاوید کی طرف سے کوئی نہیں گیا، گھر کو منہدم کرنے کا حکم 25 مئی کو جاری کیا گیا تھا اور اس کا نوٹس چسپاں کیا گیا تھا کہ 9 جون کو خود اپنا گھر گرائیں ، ورنہ 12 جون کو منہدم کرنے کی کارروائی کی جائے گی۔ اب ان سوالات کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے نوٹس موصول نہیں ہوا، نوٹس پچھلی تاریخ میں یا کب جاری کیا گیا ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ اس گھر سے اسلحہ ملا ہے۔ جاوید کی بیٹی کا کہنا ہے کہ جب گھر خالی کیا گیا تو ملبے سے ایسی چیزیں ملنا بھی شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ اس نوٹس کے تعلق سے عدالت میں سوالات میں سوالات اور جوابات ہوں گے لیکن اب وہ گھر نہیں رہے گا جو بڑے شوق سے بنایا گیا تھا۔ امید ہے کہ اسے توڑنے والے خوب سوئے ہوں گے اور خوبصورت خواب لے کر گھر آئے ہوں گے۔ ایسے حسین خواب آتے رہتے ہیں۔ ان خوابوں کیلئے ہم اپنی کہانی میں دعا کریں گے۔ آخر اس کو توڑنے میں جو محنت لگائی گئی ہے، انتظامیہ کے افسران بھی کہہ رہے ہیں کہ دھوپ میں سب نے بڑی جانفشانی سے کام کیا۔ ایک بات اور سمجھ نہیں آئی جاوید کے وکیل کرشنا رائے اور جاوید کی بیٹی سمیہ فاطمہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے والد انتظامیہ کے ساتھ امن بحالی اجلاس میں جاتے تھے، پھر ایسا کیا ہوا کہ جاوید انتظامیہ کیلئے ویلن بن گئے؟ جن لوگوں نے پتھر پھینکے، ان کے چھوڑنے کی بات نہیں کررہا، ان کے اس تشدد سے انتظامیہ اور عام لوگوں کی جانیں بھی جاسکتی تھی۔ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ یہ کون لوگ تھے جنہوں نے یہ راستہ چنا، لیکن جو بھی ہو، کسی کو پتہ چلے گا کہ تشدد کے وقت کیا ہوا؟ تشدد کیوں پھوٹ پڑا؟ انتظامیہ کا کیا قصور تھا؟ کیا جاوید واقعی تشدد کے پیچھے کارفرما اصل ذہن تھا؟ کیا پولیس کا دعویٰ اتنا مضبوط ہے اور اگر ہے تو گھر گرانے سے پہلے عدالت کے فیصلوں کا انتظار کیوں نہیں کیا گیا؟