ملک میں مخلوط حکومت آنے کا امکان

   

غضنفر علی خان

کسی طرح سے جاریہ عام انتخابات کے پانچ مراحل طئے ہوچکے ہیں ، ان میںرائے دہی کے فیصد اور مختلف سیاسی پارٹیوں کیلئے عوام کی ہمدردی بھی بڑھتی گھٹتی گئی ہے ۔ ان انتخابات کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ اس میں تمام سیاسی پارٹیوں نے دل کھول کر ایک دوسرے کو برا بھلا کہا اور جتنا ممکن ہوسکے مخالفین کی کردار کشی بھی کی گئی ۔ غالباً پچھلے تمام انتخابات میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ گالی گلوج کے سوا انتخابی ریالیوں میں عوام نے کچھ اپنے بارے میں لیڈروں سے سنا نہیں تعجب کی بات یہ ہے کہ خود وزیراعظم نریندر مودی نے اس مقابلہ میں کسی کو پیچھے نہیں چھوڑا ۔ الزامات اور اس کے جواب میں مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی نے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں گنوایا تو دوسری طرف سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس نے بالخصوص اس کے صدر راہول گاندھی نے بھی مودی کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا ۔ عوام ان انتخابی جلسوں اور ریالیوں میں کثیر تعداد میں شرکت کرتے رہے اور شائد باقی کے دونوں مراحل میں بھی عوام کا یہ رویہ برقرار رہے گا ۔ کیونکہ یہ جلسے اور ریالیاں عوام کیلئے سستی تفریح کا سامان بن گئی ہیں ۔ عوام جو رائے دہندے بھی ہیں صرف یہ سننے کیلئے کہ آج کون کیا کہتا ہے ان میں شرکت کرتے ہیں ۔ یہ ان کی دلچسپی کا باعث بن گئی ۔ حقیقت میں عوام کو بھی یہ امید نہیں رہی کہ کوئی سنجیدہ لیڈر ان کی مفاد کی بات کرے گا ۔ آپسی گالی گلوج ، بدکاری اور غیر پارلیمانی زبان کے استعمال میں عوام کو محظوظ ضرور کیا لیکن ان کی ناامیدی کی کوئی حد نہیں رہی کہ ان کے لیڈر یا تو عوامی مسائل سے واقف نہیں ہیں یا پھر اقتدار کے حصول کے علاوہ اور کوئی بات ان کے پیش نظر نہیں رہی ۔ محض اپنی تفریح کی خاطر لوگ جلسوں ،جلوسوں اور ریالیوں میں شرکت کرتے رہے اور آئندہ بھی کریں گے ۔ ان جلسوں اور ریالیوں سے قطعی طور پر یہ اندازہ نہیں کیا جاسکتا کہ تمام شرکاء کس پارٹی کے حق میں ووٹ دیں گے ۔
بی جے پی کے تعلق سے یہ بات مسلمہ طور پر کہی جاسکتی ہے کہ اپنے بل بوتے پر یہ پارٹی اُس طرح سے قطعی اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی جیسے کہ اُس نے 2014ء کے عام چناؤ میں کی تھی ۔ لہذا یہ پیش قیاسی بڑی حد تک درست ثابت ہورہی ہے کہ بی جے پی یا کسی اور پارٹی کو بھی پارلیمنٹ میں اتنی بڑی کامیابی حاصل ہوگی کہ وہ تنہا اپنی حکومت بناسکے ۔ اب تو جب کہ تین چوتھائی سیٹوں پر انتخابات کے تمام مراحل طئے ہوچکے ہیں ، بی جے پی کے ترجمان یہ کہتے ہیں کہ اگر ہماری پارٹی کو 271نشستیں بھی مل گئی تو اس کو ہم غنیمت سمجھیں گے ۔ ان کے علاوہ بی جے پی کے اور تجربہ کار لیڈرس بھی اس معاملہ میں معنیٰ خیز خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ اترپردیش کی انتہائی اہم نشست پر راہول گاندھی اور بی جے پی کی لیڈر سمرتی ایرانی کے درمیان جو مقابلہ پانچویں مرحلہ میں ہوا اس کے بعد سمرتی ایرانی نے یہ الزام لگانا شروع کردیا کہ ان کے حلقہ میں پولنگ بوتھس پر قبضہ کرنے کے متعدد واقعات ہوئے ہیں ۔ ایسی بہانے بازی تو صرف اُس پارٹی کے لیڈرس ہی عموماً کرتے ہیں جن کو اپنی شکست صاف طور پر نظر آتی ہے ۔ پارلیمنٹ کے دوسرے حلقہ رائے بریلی میں جہاں پانچویں مرحلہ میں ووٹنگ ہوئی سونیا گاندھی کے اس حلقہ میں ان کے حق میں بھاری رائے دہی ہوئی ہے ۔ ویسے بھی بی جے پی نے ان دونوں حلقوں میں نہ تو کوئی بھاری بھرکم اور سنجیدہ فکر امیدوار کھڑا کیا تھا اور نہ انتخابی مہم اس شدت سے چلائی گئی جیسے اترپردیش کے دوسرے حلقوں میں چلائی گئی ہے ۔ اترپردیش میں بی جے پی کا راست مقابلہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگریس پارٹی سے نہیں ہے بلکہ بی جے پی کو اصل چیلنج اترپردیش کی دو علاقائی جماعتوں بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی سے ہے اور ان دونوں کی متحدہ طاقت بی جے پی کی شکست کیلئے کافی ہے ۔ جہاں تک اترپردیش کا سوال ہے کہ یقیناً یہ وہ ریاست ہے جس میں زیادہ تعداد میں ارکان پارلیمنٹ کے منتخب ہونے پر کوئی پارٹی اقتدار تک پہنچنے کے دعوے کرسکتی ہے ۔ بی جے پی کو اس مرتبہ پہلے پانچ مراحل کے چناؤ میں کوئی غیر معمولی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔ اس کی پڑوسی ریاست بہار میں بی جے پی کا نہ تو کوئی مضبوط لیڈر ہے اور نہ یہاں انتخابی مہم میں بی جے پی نے ویسی سرپھوڑ کوشش کی جیسی اور ریاستوں میں کررہی ہے ۔ ان دو بڑی ریاستوں میں بی جے پی کے نسبتاً کمزور موقف کی وجہ سے بھی اپوزیشن کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ مل جل کر مخلوط حکومت قائم کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں ۔
مغربی بنگال میں بی جے پی کا سخت کانٹے کا مقابلہ ہے ۔ ترنمول کانگریس اور اس کی بے باک لیڈر چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی ہیں ۔ مغربی بنگال میں پانچویں مرحلہ میں کافی پرتشدد واقعات ہوئے جس سے ممتابنرجی کی اپنے ووٹرس پر مضبوط گرفت کا پتہ چلتا ہے ،تمام اپوزیشن لیڈروں نے ممتابنرجی ہی کو بی جے پی اور وزیراعظم نریندر مودی کو خاص نشانہ بنایا ہے ۔ ویسے بھی ممتا بنرجی انتہائی بے باک انداز میں اپنے حلیفوں پر تنقید کرتی ہیں ۔ نیشنل کانگریس کے لیڈر شرد پوار نے تو ان ہی خاتون لیڈر ممتابنرجی کو مخلوط حکومت کا وزیراعظم بنانے کی پیش قیاسی بھی کی ہے ۔ سارے ہندوستان میں ان پانچ مراحل کے انتخابات میں یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ ملک کے کسی بھی حصہ میں بی جے پی یا مودی کے حق میں کوئی لہر نہیں ہے ۔ گذشتہ پانچ برسوں سے حکمرانی کے دوران عوام کو یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ مودی انہیں صرف سبز باغ وہ بھی اپنی ہتھیلی پر دکھا رہے ہیں ۔ عوام کا تجربہ یہ ہے کہ بی جے پی کے وزیراعظم نے اپنا کوئی عوامی وعدہ پورا نہیں کیا ، اس لئے ان کے حق میں کوئی لہر نہیں پائی جاتی ۔ دوسری طرف بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس ہے اس کے بارے میں بھی ان پانچوں مراحل کی رائے دہی میں کسی بھی جگہ لہر نہیں دیکھی گئی اور نہ کسی دوسری علاقائی جماعت کے بارے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان کی لہر چل رہی ہے ۔ اس کے باوجود علاقائی پارٹیاں اپنا جو کچھ اثر رکھتی ہیں اُس کی بنیاد پر وہ ان کے علاقوں میں خاص بڑی کامیابی حاصل کرسکتی ہیں ۔ ان علاقائی پارٹیوں کے انتخابی مفاہمت میں بھی کوئی خاص اثر نہیں دکھایا ہے ۔ اس لئے ان میں سے کسی کو کسی ایک یا دو ریاستوں میں بے تحاشہ اکثریت حاصل ہوتے ہوئے آسانی نہیں نظر آرہی ہے ۔ البتہ ان تمام پارٹیوں کے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد یقیناً بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ سے زیادہ ہوسکتی ہے اور ان کی کوئی مخلوط حکومت کے قیام کے قیاس کو بالکلیہ طور پر رد نہیں کیا جاسکتا ۔ کسی ایک پارٹی کو اتنی اکثریت ملنے کی کوئی امید نہیں ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر حکومت قائم کرسکے ۔ یہ بات تو نوشتٔہ دیوار ہے کہ بی جے پی کانگریس کو بھی کوئی بہت بڑی کامیابی نہیں مل سکے گی ۔ اپوزیشن اگر دور اندیشی اور سیاسی سمجھ بوجھ سے کام لے تو 23مئی کو انتخابی نتائج کے بعد صورتحال واضح ہوجائے گی ۔ چھٹے اور ساتویں مرحلہ میں رائے دہندوں کے رجحان میں کوئی تبدیلی ہونیو الی ہے کم از کم موجودہ آثار تو نہیں بتاتے ہیں کہ موجودہ رجحان اس طرح قائم رہے گا اور نتائج کے بعد سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے تعاون کیلئے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوتی رہیں گی اور بالآخر سیاسی مجبوریوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کو ایک مخلوط حکومت بنانے پر مجبور ہونا پڑے گا جس کو ’’ قومی حکومت بھی کہا جاسکتا ہے ‘‘ ۔