مذکورہ الیکشن کمیشن(ای سی) کی جانب سے وزیراعظم نریندری مودی کوان کی یکم اپریل کے روز واردھا میں کی گئی”اقلیت‘ اکثریت“ والی اور 9اپریل کے روزلاتور میں پہلی مرتبہ ووٹ کرنے والے نوجوانوں سے
بالاکوٹ ائیر اسٹرئیک میں شامل جونوں کو تصور میں رکھ کر ووٹ کرنے کی اپیل پر مشتمل تقریروں پر کلین چٹ دینا ایک متفقہ فیصلہ نہیں تھا۔ انڈین ایکسپریس کا یہ اندازہ ہے۔
نئی دہلی۔دونوں معاملات میں ایک کمشنر متفق نہیں تھے اور الیکشن کمیشن میں بالآخر فیصلہ 2-1کی اکثریت کے ساتھ وزیراعظم کے حق میں لیا۔
مگر انتخابی عملے نے جمعرات کے روز تیسری شکایت جس میں مودی کے خلاف شکایت کی گئی تھی کو متفقہ طور پر مسترد کردیا کیونکہ الیکشن کمیشن کو یہ نہیں لگاکہ راجستھان کے بارمار میں مودی نے پاکستان یہ کہتے ہوئے انتباہ دیا کہ ہندوستان کی جوہری طاقت دیوالی کے لئے نہیں ہے اس میں انتخابی عملے کو کہیں پر بھی انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں دیکھائی دی۔
انہوں نے کہاتھا کہ ”ہر دوسری دن وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس نیوکلیئر بٹن ہے‘ ہمارے پاس بھی نیوکلیر بٹن ہے۔ پھر ہم کیاکریں؟ کیا ہم نے اس کودیوالی کے لئے رکھا ہے؟“۔
مذکورہ الیکشن کمیشن تین لوگوں پر مشتمل ہے کہ جس میں چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑا اور الیکشن کمشنر س اشوک لاواس اور سنیل چندرا شامل تھے
الیکشن کمیشن ایکٹ 1991کے سیکشن 10کے مطابق تمام معاملات ”حتی الامکان اتفاق سے ہونا چاہئے“۔
اس ایکٹ میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ اگر کسی معاملے میں ”چیف الیکشن کمشنر او ردیگر الیکشن کمشنران کی رائے میں اتفاق نہیں ہوتا ہے تو معاملے کا فیصلہ اتفاق کی اکثریت پر کیاجانا چاہئے“۔
مذکورہ قانون نافذ ہونے کے بعد بہت ہی کم ایسے واقعات ہوئے ہیں جس میں اکثریت کی بنیاد پر کوئی فیصلہ لیاگیا ہے۔
اس میں سے الیکشن کمیشن کے درمیان تفریق کی ایک مثال 2009میں پیش ائے تھی جب کمیشن نے اپنی منقسم رائے صدرجمہوریہ کو روانہ کی تھا کہ آیا کانگریس صدر سونیا گاندھی کو بیرونی ایوارڈ لینے پر بطور رکن پارلیمنٹ نااہل قراردیاجانا چاہئے یانہیں۔
اس وقت پیانل میں چیف الیکشن کمیشن کے طورپر این گوپال سوامی خدمات انجام دے رہے تھے اور پیانل میں ایس وائی قریشی اور نوین چاؤلہ بھی شامل تھے۔
وہیں گوپال سوامی نے اپنی رائے میں کہاتھا کہ2006نومبر میں سو نیاگاندھی کے بلجیم کے سب سے باوقار شہری ایوارڈ حاصل کرنے کے معاملے کی مزید جانچ کی جانی چاہئے جبکہ چاؤلہ اور قریشی نے اس کو مسترد کردیاتھا‘ جنھوں نے فیصلہ کرلیاتھا کہ تحقیقات مکمل ہوگئی ہے اور اس پر مزید کوئی کاروائی درکار نہیں ہے۔
مگر اس وقت اختلا ف دیکھائی دیا جب جاریہ لوک سبھا الیکشن کے دوران کانگریس کی مودی کے خلاف مبینہ طور سے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی شکایت کی ہے۔
چہارشنبہ تک دو شکایتوں پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ دیا۔
پہلی شکایت پر کلین چٹ منگل کے روزدی جب الیکشن کمیشن کو لگاکہ واردھا میں یکم اپریل کو اپنی تقریر کے دوران جب راہول گاندھی کے وائناڈ سے الیکشن لڑنے کے فیصلے کا حوالہ دیا‘
انہوں نے کہاتھا کہ پارٹی ”اکثریتی اثر والے علاقوں سے بھاگ رہی ہے“ تاکہ”پناہ گزینوں کو ان علاقوں میں لاسکے جہاں پر اکثریتی طبقہ اقلیت میں ہے“