منی پور میں امن قائم کیا جائے

   

شمال مشرقی ریاست منی پور میں تشدد کے واقعات تھمنے اور رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ کچھ عرصہ توقف کے بعد ریاست کی صورتحال ایک بار پھر سے سنگین ہوگئی ہے ۔تشدد کے تازہ واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ عوامی جائیدادو املاک تباہ ہو رہی ہیں اور انسانی جانیں بھی تلف ہو رہی ہیں۔ مرکزی حکومت کا دعوی ہے کہ وہ مسلسل صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔ صرف صورتحال پر نظر رکھے رہنے سے مسئلہ کا کوئی حل نہیں برآمدہوسکتا ۔ اس کیلئے سبھی فریقین کو اعتماد میں لیتے ہوئے جامع اور منصفانہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ ریاست کے دو اہم قبائل کے مابین اس طرح کی صورتحال نہ ریاست منی پور کیلئے ٹھیک ہے اور نہ ہی اسے ملک کیلئے بہتر کہا جاسکتا ہے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے مسلسل ہدایات جاری کی جا رہی ہیں کہ ریاست میں صورتحال کو بہتر بنایا جائے ۔ متحارب گروپس اور قبائل سے بھی امن برقرار رکھنے کی اپیل کی جا رہی ہے لیکن ریاستی حکومت صورتحال کو قابو کرنے میں ناکام ہوتی جا رہی ہے ۔ ریاستی حکومت پر الزام ہے کہ وہ قبائلی عوام میں تفریق کیلئے ذمہ دار ہے ۔ اس کے کچھ فیصلے اور اقدامات ریاست میں تشدد کو ہوا دینے کا باعث بنے ہیں۔ جہاں ایک گروپ حکومت کے فیصلوں اور اقدامات سے مطمئن اور بحال نظر آ رہا ہے وہیں دوسرے گروپ کو حکومت کے اقدامات سے ناراضگی ہے اور اسی وجہ سے دونوں ہی فریقین کے مابین کشیدہ صورتحال بن گئی ہے اور یہ طوالت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ حالات پر قابو پانے میں مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومت ہو ان کی جانب سے جتنی تاخیر کی جائے گی نقصان اتنا زیادہ ہوگا ۔ جتنا جلد ممکن ہوسکے مرکزی حکومت کو مداخلت کرتے ہوئے ریاست کے حالات کو سدھارنے اور امن بحال کرنے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ جہاں ریاستی حکومت حالات کو بہتر بنانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے وہیں مرکزی حکومت بھی اب تک صرف ہدایات جاری کرنے پر ہی اکتفاء کر رہی ہے ۔ اس سے حالات بہتر ہونے والے نہیں ہیں اور نہ ہی ریاست میں جاری پرتشدد واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔
مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ ریاست کا دورہ کرنے والے ہیں۔ انہوں نے تمام فریقین سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے ۔ مرکزی وزیر داخلہ ہوں یا دوسرے عہدیدار ہوں انہیں ریاست کی صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیناچاہئے ۔ تشدد کی وجہ بننے والے عوامل پر غور کرنا چاہئے ۔ تمام وجوہات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فریقین کے ساتھ اجلاس منعقد کئے جانے چاہئیں۔ ایک سے زائد اجلاس بھی ضروری ہوں تو وہ بھی منعقد کئے جانے چاہئیں۔ تمام فریقین کو اعتماد میں لینے کے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ ایک دوسرے کے تعلق سے کشیدگی کو کم کرنے بلکہ ختم کرنے کیلئے پہل کی جانی چاہئے ۔ اگر حکومت کے اقدامات میں کہیں غلطی ہوئی ہے توا س کو سدھارنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جانی چاہئے ۔صرف فوج کو متعین کرتے ہوئے یا پھر طاقت کا استعمال کرتے ہوئے حالات کو قابو کرنے میں کامیابی نہیں مل سکتی ۔ اب تک یہ کوشش کی جا چکی ہے اور یہ بے سود ہی ثابت ہوئی ہے ۔ اب تک کے تجربہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرکزی حکومت او ر ریاستی حکومت کو کوئی الگ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ شمال مشرق ہندوستان کا ایک اہم اور اٹوٹ حصہ ہے اور وہاں اس طرح کے حالات ملک کے مفاد میں نہیں ہوسکتے ۔ جو علاقائی ترجیحات اور عوامل ہیں ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت کو منصوبہ تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوام میں اعتماد پیدا کرنے کیلئے ضرور سکیوریٹی فورسیس کی تعیناتی بڑھائی جاسکتی ہے لیکن صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا جاسکتا ۔
منی پور کے جو متحارب قبائل ہیں ان کو بہتر انداز سے بات چیت کی میز پر لانے کیلئے پہل کی جانی چاہئے ۔ ان کے مطالبات کی سماعت کی جانی چاہئے ۔ ان پر غور کیا جانا چاہئے ۔ دستور اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان کا جائزہ لیتے ہوئے عملی اقدامات کا آغاز کیا جانا چاہئے ۔ صورتحال کو طویل وقت تک بگاڑ کا شکار رہنے اور تشدد کا سلسلہ جاری رہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ جان و مال کے نقصان کو روکنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے اور مرکزی و ریاستی دونوں ہی حکومتوںکو یہ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ جو کچھ بھی اقدامات کرنے ہیں وہ جلد شروع کئے جانے چاہئیں ۔