تھا بہت ہی ناز اُن کوا پنی جھوٹی شان پر
کُھل گئی مٹھی بھرم کی کیا تھا اور کیا ہوگیا
شمال مشرقی ریاست منی پور میں حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے ہیں۔ تشدد ریاست میں پھیلتا جا رہا ہے ۔ سماج کے مختلف طبقات کے مابین کشیدگی کی وجہ سے حالات دگرگوں ہونے لگے ہیں۔ ریاست میں ویسے تو سیاسی استحکام کے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن سماج کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنے ‘ ان کو اعتماد میں لیتے ہوئے فیصلے کرنے اور انہیںصورتحال کے مطابق فیصلوں کیلئے تیار کرنے میں حکومت کی ناکامیوں کی وجہ سے یہ حالات پیدا ہوئے ہیں۔ منی پور شمال مشرق کی ایک چھوٹی لیکن خوبصورت ریاست کہی جاتی ہے ۔ یہ ملک کا اٹوٹ حصہ ہے ۔ شمال مشرق میں ہونے اور جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے وہاں کے حالات کچھ مختلف ضرور ہیں لیکن اس کی بنیاد پر ملک کے قوانین کے نفاذ میں کوئی کوتاہی نہیں کی جاسکتی ۔ منی پور میں حالات اس قدر کشیدہ ہوگئے ہیں کہ ریاستی گورنر نے ضلع مجسٹریٹس کو سنگین حالات میں اشرار کو دیکھتے ہی گولی ماردینے کے احکام جاری کرنے کی ہدایت دی ہے ۔ یہاں بھاری تعداد میں سکیوریٹی اور فوجی اہکاروں کو متعین کیا جا رہا ہے ۔ فوجی کمک بھی روانہ کی جا رہی ہے ۔ تشدد کے واقعات کی وجہ سے ریاست کے کئی قبائلی اور مئیتی طبقات کے غلبہ والے اضلاع میں کرفیو بھی نافذ کردیا گیا ہے ۔ موبائیل انٹرنیٹ خدمات کو معطل کردیا گیا ہے ۔ 9 ہزار افراد کا محفوظ مقامات کو تخلیہ کروادیا گیا ہے ۔ صرف چوراچاند پور ضلع سے پانچ ہزار افراد کا تخلیہ کروانا پڑا ہے ۔ حالات میں کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی تھی جب منی پور ہائیکورٹ نے غیر قبائلی مئیتی طبقات کو درج فہرست قبائل میں شامل کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس فیصلے کے بعد ناگا اور کوکی قبائل میںناراضگی پیدا ہوئی ہے جو ریاست کی آبادی کا 40 فیصد ہوتے ہیں۔ مئیتی طبقات کا جہاں تک سوال ہے وہ ریاست کی آبادی کا 64 فیصد ہیں تاہم ان کے زیر قبضہ ریاست میں صرف دس فیصد اراضیات ہیں کیونکہ ریاست کے نوٹیفائی پہاڑی علاقوں میں غیر قبائلی افراد کو اراضیات خریدنے کی اجازت نہیں ہے ۔ اگر ان طبقات کو اگر درج فہرست قبائل کی فہرست میں شامل کرلیا جاتا ہے تو وہ اراضیات خریدنے کے اہل ہوجائیں گے ۔
ریاست قبائلی عوام کے اپنے علاقے ہیںاور غیر قبائلی عوام کو ان علاقوں میں اراضیات خریدنے کی اجازت نہیں ہے ۔ آبادی کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو مئیتی طبقات کو پہاڑی علاقوں میںاراضیات سے محروم رکھے جانے کی وجہ سے ہی یہ عدم توازن کی صورتحال پیدا ہوئی ہے ۔ عدالت نے ان طبقات کو درج فہرست قبائل کی فہرست میں شامل کرنے کو کہا ہے جس کے بعد حالات دگر گوں ہوگئے ہیں اور ناگا اور کوکی قبائل کے افراد برہمی کی حالت میں تشدد پر اتر آئے ہیں۔ یہ تشدد نہ کسی کے مطالبات کی تکمیل کیلئے کارآمدثابت ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کا موجب بن سکتا ہے ۔ کشیدگی اور تشدد کے نتیجہ میں ریاست کا امن و سکون متاثر ہور ہا ہے اور یہ شمال مشرق کی اس ریاست کی ترقی کی راہ میں بھی ایک بڑی رکاوٹ بنتا ہے ۔ ریاست میں بی جے پی کی حکومت ہے جو دیڑھ سال قبل قائم ہوئی ہے تاہم اس دوران حکومت کی جانب سے ریاست کے سماجی خطوط کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے مطابق فیصلے کرنے اور سبھی کو اعتماد میں لینے کی کوئی جامع اور موثر کوشش نہیں کی گئی ہے ۔ اس طرح کے اقدامات کے ذریعہ حالات کو کشیدہ ہونے سے بچایا جاسکتا تھا ۔ یہاں سوال یہ بھی نہیں ہے کہ حکومت کس جماعت کی ہے کیونکہ مسئلہ سیاسی نوعیت کا نہیں بلکہ علاقائی نوعیت کا ہے اور مقامی روایات اور عوام کے احساسات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کو حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ مسئلہ کو سیاسی رنگ دینے سے بھی گریز کیا جانا چاہئے ۔
مرکزی حکومت کی جانب سے صورتحال پر نظر رکھی جا رہی ہے اور وقفہ وقفہ سے ریاستی حکام سے رابطے کرتے ہوئے جائزہ بھی لیا جا رہا ہے ۔ تاہم مسئلہ صرف تشدد کو روکنے یا قابو پانے تک محدود نہیں ہے ۔ ریاست کے مختلف قبائل اور طبقات میںجو بے چینی اور ناراضگی پائی جاتی ہے اس کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تمام طبقات کو اعتماد میں لے کر کوئی تجاویز پیش کی جائیں ۔ سبھی کی رائے کو سنا جائے ۔ حکومت کے موقف کو سمجھانے کی کوشش کی جائے اور پہلے سے طئے شدہ سوچ کے تحت کام کرنے کی بجائے تازہ تجاویز پیش کرتے ہوئے اس پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے ۔