’’من کی بات ،باپو کے ساتھ‘‘

   

کے این واصف

مہاتما گاندھی (مقبول عام باپوجی ) کے 150 ویں یوم پیدائش کا جشن ملک اور بیرون ملک جہاں جہاں ہندوستانی بستے ہیں وہاں منایا گیا۔ اقوام متحدہ نے مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش( 2 اکٹوبر ) کو بین الاقوامی سطح پر ’’ یوم عدم تشدد ‘‘ کے طور پر منانا طئے کیا۔ ہندوستان اور دیگر ممالک کی طرح سعودی عرب میں بھی مہاتما گاندھی کی 150 سالہ جینتی تقاریب کا سلسلہ ایک سال جاری رہا۔ سفارت خانہ ہند نے اس سلسلہ میں مختلف تقاریب کا انعقاد عمل میں لایا۔
اس سلسلہ میں سفارت خانہ ہند ریاض میں مہاتما گااندھی کا ایک مجسمہ نصب کیا گیا، جس کا رسمی افتتاح سفیر ہند ڈاکٹر اوصاف سعید نے کیا۔ ایمبیسی آڈیٹوریم میں منعقد اس سلسلہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر اوصاف سعید نے کہا کہ مہاتما گاندھی وہ واحد ہندوستانی قائد ہیں جنہوں نے ساری دنیا میں اپنی شخصیت کا لوہا منوایا۔ انہوں نے کہا کہ مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کی حکمتِ عملی کو خراج پیش کرنے کیلئے اقوام متحدہ نے 2 اکٹوبر کو بین الاقوامی سطح پر ’’ یوم عدم تشدد ‘‘ منانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ گاندھی جینتی 150 سالہ تقاریب کے سلسلہ میں گاندھی جی کی زندگی کے اہم واقعات کو پیش کرتی کوئی 100تصویروں کی ایک نمائش کا انعقاد بھی عمل میں لایا گیا۔ سفیر ہند نے مہاتما گاندھی کے 150 سالہ جشن کے سلسلہ میں سفارت خانہ ہند ریاض کی جانب سے منعقد کی گئی دیگر تقاریب کی تفصیلات سے بھی واقف کراتے ہوئے ہندوستان کے منفرد پوسٹل اسٹامپس کلکٹر سید نواب مرزا کی کاوشوں کو بھی سراہا۔ اس موقع پر نواب مرزا نے اپنے کلکشن سے مہاتما گاندھی پر دنیا کے 150 ممالک میں جاری کئے گئے پوسٹل اسٹامپس کی ایک نمائش منعقد کی۔ انفرادی طور پر کسی ایک موضوع پر اتنے اسٹامپس جمع کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ نواب مرزا کی یہ کاوش قابل صد ستائش ہے۔ مہاتما گاندھی کی 150 سالہ تقاریب کی ایک اور خاص بات یہ رہی کہ اس میں ایک سعودی فنکار احمد المیمنی نے مہاتما گاندھی کا مشہور بھجن ’’ ویشنوا جنکو … ‘‘ بڑے دلفریب انداز میں گایا۔ اس کی فلمبندی بھی کی گئی جس میں سعودی عرب کے معروف مقامات دیکھنے والوں کی دلچسپی کے لئے پیش کئے گئے۔ اسی طرح وزارتِ خارجہ ہند نے دنیا کے مختلف ممالک کے فنکاروں سے بھی ہی بھجن گوا کر اسے بڑے خوبصورت انداز میں فلمایا ہے۔ جو فلمایا ہے جو سفارت خانہ ہند نے گاندھی جینتی تقاریب میں اسکرین پر دکھایا۔ وزارت خارجہ ہند نے گاندھی کے اس بھجن کو دنیا کے 124 ممالک کے فنکاروں سے گوایا ، اور اس کی مختصر فلمبندی بھی کی۔ یہ فلم ساری دنیا میں گاندھی جینتی تقاریب میں دکھائی گئی۔
ہندوستان اور دنیا کے کئی ممالک میں گاندھی جی کے بے شمار مجسمے نصب ہیں لیکن شاید سعودی عرب میں یہ پہلا مجسمہ ہے۔ سفیر ہند ڈاکٹر اوصاف سعید نے مجسمہ کی گلپوشی کرتے ہوئے مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ جس کے بعد وہاں موجود سینکڑوں ہندوستانیوں نے بھی گاندھی جی کے مجسمہ کے آگے پھول رکھ کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر ہم ایک جانب کھڑے اپنے کیمرے سے منظر کشی کررہے تھے۔ ہندوستانی مرد و خواتین باری باری دست بستہ گاندھی جی کے مجسمہ کے آگے چند لمحے کھڑے ہوتے اور پھر آگے بڑھ جاتے۔ ایمبیسی میں این آر آئیز کے اس عمل کو دیکھ کر ہمارے ذہن میں یہ خیال آیا کہ یہاں رہنے والے ہندوستانیوں کو گاندھی جی کے مجسمہ کو دیکھنے اور خراج عقیدت پیش کرنے کا پہلی بار موقع حاصل ہوا، اور ظاہر ہے کہ خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ہر شخص نے باپو سے اپنے من کی بات بھی کہی ہوگی کیونکہ آج کے حالات کے پیش نظر ہر امن پسند، سیکولر ذہن اور پڑھے لکھے ہندوستانی کے ذہن میں کوئی نہ کوئی شکوہ ضرور ہے۔ ہم نے ان کے چہروں کے تاثر سے ان کے ذہن کو پڑھنے کی کوشش کی۔ اور خاموش لبوں سے ہوئی ان کے من کی بات کو الفاظ میں ڈھالا جس کا حاصل یوں رہا :
’’ باپو ! آپ زندگی بھر بے سہاروں کے مددگار اور مظلوموں کے حامی رہے۔ مگر آج آپ کے دیس میں صاحب اقتدار اور قانون ساز ایوانوں کے اراکین ظالموں، قاتلوں اور عصمتیں لوٹنے والوں کی ہمت افزائی کرتے ہوئے ان کی گلپوشیاں کررہے ہیں، ان کی قانونی اور مالی مدد کررہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ملک میں اب آپ کے قاتل کا نام بھی ادب و احترام سے لیا جانے لگا، اور کوئی جب نہیں کہ کل ملک کے چوراہوں پر اس کے مجسمے بھی نصب کئے جائیں۔
باپو ! آپ گجرات کی سرزمین سے امن کا پیام لے کر اُٹھے تھے اور اُسے سارے ہندوستان میں پھیلایا، مگر آج اسی دھرتی سے فرقہ پرستی اور دہشت پھیلائی جارہی ہے۔ بلکہ فرقہ پرستی اور دہشت گردی کے ایجنڈے کو عام کرنے کیلئے ( 2002 ء میں ) اسی سرزمین کو ایک لیباریٹری بناکر بدترین دہشت گردی کا ایک تجربہ کیا۔ پھر یہ سلسلہ دراز ہوا، اور آج دہشت گردی ملک کے طول و عرض میں عام ہوتی جارہی ہے۔ لنچنگ ، قتل و غارت گری کو معمول بناکر اقلیتی طبقے کے حوصلے پست کئے جارہے ہیں۔ ملک میں ان کے عرصہ حیات کو تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
باپو ! جدوجہد آزادی میں ہندو، مسلم ، سکھ ، عیسائی آپ کے ہمقدم اور آپ کی طاقت ہوا کرتے تھے۔ مگر آج قوم کو فرقوں میں بانٹ کر ملک سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے وجود کو مٹانے کے عزائم ظاہر کئے جارہے ہیں۔ ایک انتہا پسند قائد نے تو یہ تک اعلان کردیا کہ ڈسمبر 2020ء کے بعد ہندوستان میں ہندوؤں کے سوا کوئی اور مذہب کا ماننے والا نہیں رہے گا۔
باپو ! آپ نے ہندو دھرم میں چھوٹی ذات کہلائے جانے والوں کو قریب کیا، ان کو ’’ ہریجن ‘‘ نام دے کر ان کا مان بڑھایا ۔ مگر آج پھر سے ملک میں اعلیٰ اور ادنیٰ ذات کے نام پر ملک کے ایک بڑے طبقہ کو سماج میں ذلیل و خوار کیا جارہا ہے۔
باپو ! آپ نے اپنے ’ عدم تشدد ‘ کی حکمت عملی سے برطانوی سامراج کو شکست دی اور آج تشدد کے ذریعہ جمہوریت چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
باپو ! آپ اور آپ کے رفقاء نے ہندوستانیوں کے پیروں سے غلامی کی زنجیریں نکالیں، انہیں آزاد کیا۔ سارے ہندوستانیوں کیلئے ایک آزاد اور خود مختار ملک کے خواب کو پورا کیا۔ مگر آج پھر سے ہمارے پیروں میں معاشی بدحالی، ذات پات، اونچ نیچ کا بھید بھاؤ ، مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی جیسی لعنت کی زنجیریں پہنائی جارہی ہیں۔
باپو ! آج ملک میں نہ صرف لاکھوں نوجوان بے روزگار ہیں بلکہ لاکھوں برسر روزگار افراد غیر مستحکم اور غیر منصوبہ بند معاشی پالیسی کی وجہ سے اپنی ملازمتوں سے محروم ہورہے ہیں۔ معیشت کی حالت ناقابل بیان ہوگئی ہے۔ اور اب تو عوام نے جو اپنا پیسہ بینکوں میں جمع رکھا تھا اُسے بینکس اب کھاتے داروں کو دینے سے انکار کررہے ہیں۔ لوگ بینکوں کے آگے روتے بلبلاتے کھڑے ہیں۔
باپو ! ملک میں نوٹ بندی کی گئی، اس کا کیا فائدہ ہے ، اس سے عام آدمی آج تک لاعلم ہے۔ عام آدمی نے تو بس یہ دیکھا کہ ATM کی لائن میں کھڑے سینکڑوں افراد نے اپنی جان گنوائی، ہزاروں افراد دھوپ میں کھڑے کھڑے بیمار ہوئے، لاکھوں چھوٹے بیوپاریوں کے کاروبار متاثر ہوئے۔
باپو ! ملک میں پولیس، قانون کے محافظین ہونے کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں ایسے افراد ملک میں گھوم رہے ہیں جو کسی کو بھی مجرم قرار دے کر اُسے بر سر موقع سزا دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں اب تک اقلیتی فرقہ کے بیسیوں افراد کی جانیں گئیں اور ہزاروں دلت ، مسلمان اور عیسائی لو گ زخمی ہوئے۔
باپو ! غیر جانبدار صحافت نے جدوجہد آزادی میں آپ کا ساتھ دیا، دیانتدارانہ صحافت کے تقاضے پورے کئے۔ مگر آج بڑے بڑے تجارتی گھرانے دولت کے بَل بوتے پر صحافت کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں، جو دن رات ایک گمراہ کن تصویر اپنے چینلز پر دکھاتے یا اپنے اخباروں کے صفحات کالے کرتے ہیں۔
باپو ! ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ، اس کا آئین ہر ہندوستانی کو بلا لحاظ مذہب و ملت، ذات پات، امیر غریب، کالے گورے میں کوئی فرق کئے بغیر سب کو برابری کے حقوق عطا کرتا ہے۔ ہر مذہب کے ماننے والے کو اس کے عقیدے پر عمل پیرا رہنے کی اجازت دیتا ہے ، ہر علاقے کے باشندوں کو ان کی زبان ، ان کی تہذیبی روایات، ان کے رہنے بسنے ، کھانے پینے اور اپنی پسند کے پہناوے اختیار کرکے ملک میں رہنے کی آزادی دیتا ہے۔ مگر آج عوام کے ان حقوق کو ختم کرنے یا ان پر پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر لگتا ہے کہ ملک کو پھر ایک بار گاندھی کی ضرورت ہے جو عوام کو نئی غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرائے اور ملک کے دستور اور آئینی حقوق کے مطابق آزادی کے ساتھ جینے کا حق دلائے۔
باپو ! آپ ایک بار پھر آیئے اور اپنے دیس اور دیس واسیوں کو بچایئے۔ ان کی مسیحائی کیجئے۔ 90 سال قبل آپ نااُمیدی کے اندھیروں میں سورج بن کر آئے تھے۔ اب پھر ایک بار اتحاد، بھائی چارگی، مساوات اور امن کے پیام کو پھیلانے کیلئے آیئے۔ اور اپنا سفر کشمیر سے شروع کیجئے۔‘‘
سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا
یہی تو وقت ہے سورج کی کرنیں نکلنے کا