موت ہی آخری سچ، حکومت سچائی کو چھپارہی ہے

   

روش کمار
اکثر آپ نے یہ دیکھا ہوگا کہ جماعت یا کلاس روم میں کوئی طالب علم ہوم ورک کرکے نہیں جاتا ہے تو وہ اسی کوشش میں رہتا ہیکہ استاد کی نظر اس پر نہ پڑے اور جلد ہی کلاس ختم ہونے کی گھنٹی بج جائے۔ لگتا ہے کہ سرکار کی بھی یہی حالت ہوگئی ہے۔ گودی میڈیا اس بات کی پوری پوری کوشش کررہا ہیکہ بحث کا کوئی ایسا موضوع ہاتھ آجائے کہ نیا ہنگامہ کھڑا ہو اور عوام اس میں الجھ جائیں، مگر ایسا ہو نہیں پا رہا ہے۔ میں ہر روز یہ اس لئے بتاتا ہوں تاکہ آپ کو پتہ رہے کہ ان دنوں واٹس ایپ یونیورسٹی میں مسلم مخالف پیامات کی بھرمار ہو رہی ہے۔ آپ کو فرقہ وارانہ تشدد اور طیش میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے، نفرت کرنے کے لئے نفرت کا سہارا مت لیجئے۔ آپ نے چند ہفتہ قبل دیکھا تھا کہ کیا ہندو کیا مسلم سب ایک دوسرے کی مدد میں لگے تھے اور حکومت غائب تھی۔ آپ کو اس فرقہ واریت سے کیا ملا؟ آپ کیا اپنوں کی جان بچا پائے، اسپتالوں میں آکسیجن بند ہوگئی اور جب لوگ مرنے لگے تو کیا آپ انہیں بچا پائے۔ ان کی زندگیوں کا تحفظ کر پائے؟ کیا انہیں سلینڈر ملا؟ وینٹی لیٹر ملا؟ اسپتال ملا؟ ہر خاندان یا ان کے عزیز و اقارب میں اموات ہوئیں ہیں، آپ تو یہ بھی نہیں جان پارہے ہیں کہ کووڈ ۔ 19 سے کتنی زندگیاں ضائع ہوئیں۔ دوستو جوش میں صرف جھوٹ ہے۔ جھوٹ کے اتنے پہرے دار اور چوکیدار ہیں کہ ہر جھوٹ سرپر رقص کناں ہیں۔ آج کسی جھوٹ کو کوئی تکلیف نہیں ہے، ہر جھوٹ کا خیال رکھا جارہا ہے۔ مفت راشن دیا جارہا ہے، سارے جھوٹ ملک میں ہی چوکیدار، کا گیت گا رہے ہیں۔ سچ کی تمام راہیں مسدود ہیں معمولی بحث کے لئے کوئی راہ نہیں مل پارہی ہے۔
ہندوستان میں جھوٹ کی ایسی چال ناقابل تصور ہے بے نظیر بھی ہے۔ ’’آ‘‘ سے میرے الفاظ ختم ہوگئے ہیں۔ اب ’’نا‘‘ اور ’’ج‘‘ سے جملے بناتا ہوں۔ پنچ تنتر میں آپ نے سنا ہوگا کہ جب نیت صاف نہیں ہوتی ہے پالیسی واضح ہوتی ہے… تب نتیجہ میں لوگوں کو اپنی جانوں سے محروم ہونا پڑتا ہے نعشوں کو غائب کرکے ان کی گنتی یا شمار کم کرنا ہی پڑتا ہے۔
پٹنہ دینک بھاسکر کی رپورٹ میں سرخیاں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ حکومت نے کووڈ ۔ 19 سے مرنے والوں کی تعداد 72 فیصد چھپائی تھی۔ بہار حکومت کی آڈٹ کے بعد کووڈ سے ہوئی اموات کے معاملہ میں بہار اب سولھویں نمبر سے 12 ویں نمبر پر آچکا ہے۔ 8 جون کو سارے بہار میں مرنے والوں کی تعداد 5424 تھی جس میں 3951 مزید شامل کئے گئے۔ اس طرح بہار میں کووڈ ۔ 19 سے مرنے والوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے جو 9375 تک پہنچ گئی حالانکہ وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہے اور بہار میں 9429 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ 3 جون کو پٹنہ بھاسکر کے راکیش رنجن آلوک کمار اور ان کی ٹیم نے بتایا تھا کہ مئی کے مہینے میں پٹنہ شہر کے تین شمشان گھاٹوں میں 1648 نعشوں کی آخری رسومات انجام دی گئیں جبکہ سرکاری اعداد و شمار میں جن نعشوں کی آخری رسومات انجام دی گئی ان کی تعداد 446 بتائی گئی۔ تقریباً 73 فیصد کم تعداد بتائی گئی ۔ نئے اعداد و شمار کے حساب سے پٹنہ میں کووڈ سے مرنے والوں کی تعداد 2303 ہوچکی ہے جوکہ پہلے 1229 بتائی گئی تھی۔ پٹنہ بھاسکر نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پٹنہ میں مرنے والوں کی تعداد 5000 تک جاسکتا ہے لیکن حکومت اس تعداد کو 2300 بتاتی رہی ہے۔
پٹنہ، بہار کا صدر مقام ہے یہیں کے لوگوں سے یہ بات پوشیدہ رکھی گئی کہ کتنے لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے ہیں۔ دعوے سے کوئی نہیں کہہ سکتا ہیکہ نئی تعداد صحیح تعداد ہے۔ بہار کے 38 اضلاع میں مرنے والوں کی تعداد 72 فیصد بڑھ گئی ہے۔ 7 جون کو کیمور ضلع میں 44 لوگوں کی موت ہوتی ہے اس ریکارڈ کو درست کرکے اموات کی تعداد 146 کردی گئی۔ اس کا مطلب 231 فیصد تعداد بڑھی ہے۔ اسی طرح سے حساب لگاکر دیکھئے کہ مارچ، اپریل اور مئی کے مہینہ میں مرنے والوں کی کتنی تعداد چھپائی گئی۔ ضلع سہرسہ میں 225 فیصد تک تعداد میں اضافہ ہوا۔ بیگوسرائے میں 7 جون تک کووڈ سے مرنے والوں کی تعداد 138 تھی۔ 8 جون کو 454 کردی گئی اسی حساب سے آپ ذرا سوچئے کہ قومی سطح پر کیا حال ہوگا؟
حکومت بہار کو آڈٹ اس لئے کرنی پڑی کیونکہ عدالت مسلسل حلف نامہ طلب کررہی تھی ان حلف ناموں میں حکومت کا جھوٹ بناء محنت کے پکڑ میں آرہا تھا۔ ضلع بکسر میں مرنے والوں کی تعداد میں مضحکہ خیز فرق پکڑا گیا۔ عدالت میں چیف سکریٹری نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بکسر میںیکم مارچ اور 15 مئی کے درمیان صرف 6 اموات ہوئیں۔ پٹنہ کے کمشنر اپنی رپورٹ میں بتاتے ہیں کہ 5 اور 15 مئی کے درمیان ضلع بکسر کے ایک شمشان گھاٹ پر 789 نعشیں نذر آتش کیگئیں۔ اس سطح کے دھوکے دیئے گئے ہیں۔ 17 مئی کو پٹنہ ہائی کورٹ کی ایک تبصرہ سے پتہ چلتا ہیکہ عدالت کا صبر بھی جواب دینے لگا تھا۔ دونوں حلف ناموں میں اموات کے فرق کو دیکھ کر چیف جسٹس سنجے کرول اور جسٹس سنجے کمار کی بنچ نے کہا کہ جس طرح سے بکسر میں ہوئی اموات کے دو الگ الگ اعداد و شمار کے حلف نامے عدالت کے روبرو داخل کئے گئے ہیں ہم اس پر حیران ہیں۔ عدالت کو حکومت سے صحیح اور توثیق شدہ ڈیٹا حاصل ہونے کی امید ہے۔

عوام یہ جاننے کے خواہاں ہیں کہ اسپتالوں کی صورتحال بہت ابتر تھی وقت پر آکسیجن کیوں سربراہ نہیں کی گئی۔ عوام کے لاکھوں روپے لوٹے گئے۔ حکومت بھی جانتی ہیکہ عوام میں برہمی کی لہر پائی جاتی ہے۔ اس برہمی کے لئے بھی معاوضہ ہے اور وہ بھی صرف چار لاکھ روپے۔ آپ کو بتادوں کہ 350 کروڑ روپے معاوضہ تقسیم کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ قانون کے مطابق معاوضہ کی یہ رقم فی کس 10 لاکھ روپے سے کم نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن کیا ہم ابھی تک یہ جان پائے ہیں کہ ہندوستان میں کتنے لوگ کووڈ ۔ 19 کی زد میں آکر فوت ہوئے ہیں۔ ان بے شمار لوگوں کا کیا ہوگا جن کی موت کووڈ ۔ 19 سے ہوئی لیکن اسپتال نے موت کی وجہ کووڈ تحریر نہیں کی۔ یہ بھی سنا گیا ہیکہ اگر ایک ضلع سے تعلق رکھنے والے مریض کی دوسرے ضلع کے اسپتال میں موت ہوئی ہے تو اس کا دونوں اضلاع میں شمار نہیں کیا گیا۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس طرح کے کتنے مریض ہیں۔ ان کا الگ حساب کتاب یا آڈٹ کی جانی چاہئے۔

چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے کہا ہیکہ حکومت کووڈ ۔ 19 مریضوں کے علاج کے مصارف برداشت کرے گی۔ اب حکومت کو یہ بتانا چاہئے کہ کتنے لوگ کورونا کے علاج کے لئے اس سے رجوع ہوئے ہیں؟ کتنے مریضوں کو رقم ادا کی گئیں؟ کئی لوگوں کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ کورونا سے متاثر ہوئے تھے لیکن ان کے ٹسٹ نگیٹیو آئے کیونکہ ان کا علاج کیا گیا تھا، کیا حکومت اس طرح کے لوگوں کے علاج کی رقم بھی ادا کرے گی۔کووڈ سے متعلق بے شمار سوالات ہیں جن کے جوابات دینے کے لئے ایک سال سے زائد تحقیقات کرنی ہوگی۔ اگر بہار میں ہوئی کورونا اموات کی تعداد کو درست کرنے پر اس میں 72 فیصد اضافہ ہوتا ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوستان میں جملہ اموات 390,676 نہیں بلکہ 6,18,642 اموات ہوئی ہیں۔ اب بھی آپ یہ یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ بہار نے اموات کے درست اعداد پیش کئے ہوں۔ یہ سوال بار بار پوچھا جائے گا کہ حکومت ہند کووڈ سے مرنے والوں کی حقیقی تعداد سے عوام کو کب واقف کروائے گی۔