مودی بمقابلہ گڈکری … واہمہ

   

راج دیپ سردیسائی
یہ ماہ میرے لئے 25 سال کی تکمیل کا نقیب ہے جبکہ میں قومی دارالحکومت میں مقیم ممبائیکر (ممبئی والا) بنا۔ فبروری 1994ء میں جب میں دہلی کیلئے ممبئی سے روانگی کی تیاری کررہا تھا، ایک سینئر پیشہ ور رفیق نے مجھے متنبہ کیا تھا: ’’یاد رکھو، دہلی سنگدل مقام ہے جہاں ہم مہاراشٹرا والوں کو ہم آہنگ ہونے میں مشکل پیش آتی ہے۔ محتاط رہو۔‘‘
مہاراشٹرا والے بالعموم دہلی کے خاص سیاسی طبقے کے مقابل نسبتاً حاشیے پر رہے ہیں، جو نتن گڈکری کے ممکنہ طور پر مستقبل کے وزیراعظم بننے کے بارے میں بڑھتی قیاس آرائی پر جوش کی جزوی طور پر وضاحت کرسکتا ہے۔ آخرکار، وائی وی چوان سے شرد پوار تک وہی ’دلی دور راست‘ کا معاملہ رہا ہے، کہ مغربی گھاٹوں کی طرف کے سیاستدانوں کیلئے مواقع گنوا دینے اور جھٹکے لگنے کی تاریخ ہی رہی ہے۔
اب تیزی سے گڈکری کے موضوع پر آتے ہیں، ظاہر طور پر غیرروایتی بی جے پی سیاستدان ہے جو ناگپور کے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے وابستہ ہیں، لیکن کارپوریٹ انڈیا کی چمکدار روشنیوں سے بھی مساوی طور پر مانوس ہے۔ چھ سال قبل مالیاتی بے قاعدگیوں کے الزامات کے درمیان بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی صدارت چھوڑنے پر مجبور کئے جانے کے بعد سے اب بی جے پی زیرقیادت حکومت کے ممکنہ منصوبہ دوم والے وزیراعظم کے طور پر دیکھے جانے پر گڈکری خود کو مودی کے اُبھرتے متبادل کی حیثیت سے توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ گڈکری کے ہر معنی خیز ریمارک کو ناراضگی کی علامت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، جس پر انھیں وضاحت کیلئے مجبور ہونا پڑرہا ہے کہ وہ بدستور پارٹی کے وفادار سپاہی ہیں۔لہٰذا، گڈکری کی اہمیت کی کیا وضاحت ہوسکتی ہے؟ اول، ایسی حکومت میں جہاں زیادہ تر مرکزی وزراء کو یا تو توقع سے کم کام کرنے والے یا پھر کم کارکردگی پیش کرنے والے سمجھا جارہا ہے، گڈکری چند میں سے ہیں جو درحقیقت وزیراعظم نریندر مودی کے وعدوں کو نتائج میں تبدیل کررہے ہیں۔ وزیر روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کی حیثیت سے انھوں نے سڑکوں کی تعمیر کی رفتار کو مشن کے انداز میں آگے بڑھایا ہے۔ انھیں کافی تشہیر والے کلین گنگا پروجکٹ کی ذمہ داری بھی تفویض کیا جانا اُن کے ایک وزیر کی حیثیت سے بڑھتے مرتبہ کا عکاس ہے، اور وہ واقعی کام کرنے والے شخص ہیں۔
دوم، گڈکری کی آر ایس ایس قیادت سے قربت انھیں برسراقتدار بی جے پی کی خاص درجہ بندی سے آزاد طاقت کا سرچشمہ فراہم کرتا ہے۔ مودی۔ امیت شاہ جوڑی کے اجارہ دارانہ رجحانات نے طاقت کے کوئی بھی حریف مراکز کو اُبھرنے کیلئے شاید کوئی جگہ چھوڑی ہے۔ عوامی لیڈر نہ ہونے کے باوجود گڈکری اس کے قریب ترین ہیں جہاں بی جے پی کا کوئی جاندار لیڈر ہونا چاہئے جو اپنی سیاسی واجبیت کیلئے بی جے پی کی طاقت کی جوڑی پر پوری طرح منحصر نہیں۔
سوم، گڈکری کا رضامندی سے کام کرنے کا انداز تحکمانہ اور کنٹرول والی قیادت کے طرز سے بالکلیہ برعکس ہے جو ’برانڈ مودی‘ کی تشریح کرتا ہے۔ ہمیشہ مسکرانے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والی شخصیت کا اظہار گڈکری کیلئے مخلوط حکومت کا وزیراعظم بننے کا امکان پیدا کرتے ہیں، جو نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے بے چین حلیفوں کیلئے بہت پُرکشش امر ہے جو بی جے پی اکثریتی حکومت میں محدود اور حاشیہ پر کردیئے جانے کا احساس رکھتے ہیں، جہاں قادر مطلق سمجھنے والے وزیراعظم کا دفتر سب فیصلے کرتا ہے۔اور پھر اپوزیشن کا تک گڈکری کیلئے نرم گوشہ ایسا اشارہ ہے کہ اگر معلق پارلیمنٹ وجود میں آتی ہے تو مابعد چناؤ حلیفوں کیلئے مودی بریگیڈ کے سواء کوئی بھی قابل قبول رہے گا اور بی جے پی کیلئے اس معاملے میں مودی کے ساتھ سیاسی چالیں چلنا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔آخر میں، گڈکری کی بزنس کیلئے دوستانہ شبیہہ انھیں انڈیا اِن کارپوریشن کی حمایت دلا سکتی ہے جو کبھی وزیراعظم مودی کے حق میں نعرے بلند کرنے والے ہوا کرتے تھے لیکن اب ایسی حکومت سے مسلسل خائف ہوتے جارہے ہیں جو روایتی بڑے بزنس گھرانوں؍ شخصیتوں پر کوئی خاص مہربانی نہیں کرتی ہے اور نوٹ بندی جیسے یکطرفہ اقدامات کے ذریعے معاشی سرگرمی میں خلل ڈالنے کی مورد الزام ہے۔لیکن جہاں گڈکری بطور پی ایم کا خیال ان لوگوں کیلئے پُرکشش ہوسکتا ہے جو مودی کے اعلیٰ ترین لیڈر کی حیثیت سے اُبھرنے کو تحکم پسندی پیدا ہونے کا ثبوت بتاتے ہیں، لیکن سچائی یہ ہے کہ وڈناگر سے تعلق رکھنے والا شخص بدستور بی جے پی کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ 2019 الیکشن کو بی جے پی صدارتی الیکشن کے طرز پر لڑرہی ہے جس میں وزیراعظم بدستور واحد کارکرد شخصیت ہے۔
یہ بھی وجہ ہے کہ کیوں جو لوگ داخلی طور پر مودی بمقابلہ گڈکری زعفرانی لڑائی پیدا کرنا چاہتے ہیں دراصل تصوراتی باتیں پھیلا رہے ہیں۔ جب تک مکمل انحطاط نہیں ہوتا اور بی جے پی زائد از 100 لوک سبھا نشستیں نہیں کھو دیتی، مودی کے مقابل متبادل قیادت ابھرنے کا بہت کم امکان ہے۔ 2014 انتخابات سے قبل بھی اسی طرح کے 160 نشستوں کی تعداد کو ایسے عناصر نے نمایاں کیا تھا جن کا احساس رہا کہ بی جے پی مخصوص حد سے آگے نہیں بڑھے گی اور اس لئے ایسے لیڈر کی ضرورت ہوگی جو مخلوط سیاست کیلئے زیادہ موزوں ہو۔
مودی لہر جس نے بی جے پی کو غیرمعمولی 282 نشستوں تک پہنچا دیا، اس نے یقینی بنایا کہ اس طرح کے تمام سیاسی مفروضے تیزی سے بالائے طاق رکھے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ گڈکری کے بہی خواہوں کو تک یہی مشورہ بہتر ہوگا کہ اُن کی امیدواری کو زیادہ آگے تک نہ بڑھائیں ، ایسا نہ ہوکہ مہاراشٹرا کے ایک اور لیڈر کو ہندی پٹی کی پیچیدہ سیاست میں ناکام ہونا پڑے۔
اختتامی تبصرہ : چند روز قبل شرد پوار نے دعویٰ کیا کہ انھیں گڈکری کی ’’فکر‘‘ ہے کیونکہ وہ مودی کے مقابل متبادل کے طور پر پیش کئے جارہے ہیں۔ پوار کو ضرور اچھی طرح جانکاری ہوگی کیونکہ انھوں نے ماضی میں اپنے وزارت عظمیٰ عزائم کو کبھی پوشیدہ نہیں رکھا۔ قومی سیاست کی بازنطینی دنیا میں ممکنہ طور پر طویل عرصے تک ’مرکز توجہ‘ رہنے کا بعض اوقات فائدہ بھی ہوجاتا ہے!
rajdeepsardesai52@gmail.com