مودی جی کو دی کیرالا اسٹوری کی فکر40 ہزار لاپتہ گجراتی بیٹیوں کی نہیں

   

محمد نعیم وجاہت
آجکل فلم ’’دی کیرالہ اسٹوری‘‘ ملک بھر میں تنازعہ کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اس فلم میں خود کیرالہ کے ہندو ۔ مسلم اور عیسائی سیاستدانوں کے مطابق مسلمانوں کو بدنام کرنے ان پر لوجہاد کے الزامات تھوپ کر اس کا ناجائز سیاسی فائدہ اٹھانے اور ایک پرامن خوشحال تعلیم یافتہ ترقی یافتہ جنوبی ہند کی ریاست میں فرقہ پرستی کا زہر گھولنے مذہب کی بنیاد پر عوام کو ایک دوسرے سے دور کرنے کی خاطر یہ فلم تیار کی گئی جس میں جو کچھ بھی پیش کیا گیا وہ حقیقت سے بعید ہے۔ یعنی اس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اس فلم کو ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور مسلمانوں کے خلاف ایک پروپگنڈہ کہا جائے تو بہتر رہے گا۔ چنانچہ خود چیف منسٹر کیرالا پنارائی وجین نے اسے ایک پروپگنڈہ فلم قرار دیا ہے۔ کیرالہ مغربی بنگال میں اس کی نمائش پر پابندی عائد کی گئی جبکہ تاملناڈو میں تھیٹروں کے مالکین نے فیصلہ کیا کہ ان کی تھیٹروں میں مذکورہ فلم کی نمائش نہیں کی جائے گی۔ واضح رہے کہ فلم ’’دی کیرالہ اسٹوری‘‘ کے ٹیسزر اور پرموشن مہم میں ڈائرکٹر اور پروڈیوسر نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ریاست کیرالہ سے 32 ہزار ان لڑکیوں کو آئی ایس آئی ایس جیسی دہشت گرد تنظیم میں بھرتی کیا گیا جنہوں نے لوجہاد کا شکار ہوکر اپنا مذہب تبدیل کیا تھا۔ حالانکہ ایسا ہرگز کیرالہ تو دور کی بات ہے ساری دنیا میں نہیں ہوا۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ساری دنیا سے آئی ایس آئی ایس میں بھرتی کئے جانے والوں کی تعداد صرف 40 ہزار ہے۔ اگر ہندوستان کی ایک ریاست سے 32 ہزار لڑکیوں کو بھرتی کرنے کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آئی ایس آئی ایس نے دنیا کے دیگر ملکوں سے صرف 8 ہزار مردو و خواتین کو بھرتی کیا اور ہندوستان سے سب سے زیادہ بھرتیاں ہوئی ہیں۔ یہ ایسی بدترین جھوٹ ہے کہ اس جھوٹ کے ذریعہ ہی اس جھوٹ کو پھیلانے والوں اور ان کے پیچھے کارفرما ذہنوں یا ان کے آقاؤں کے ناپاک گندے عزائم اور گندگی سے بھری سوچ و فکر کا اندازہ ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہندوستان میں خاص طور پر مسلم اقلیت کو نشانہ بنائے۔ اسی کے خلاف نفرت کا زہر گھولنے اور انہیں الگ تھلگ کرنے کے لئے یہ تمام ہتھکنڈے کیوں استعمال کئے جارہے ہیں۔ حکمراں بی جے پی سے لے کر اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس اور اس کی گود میں پلنے والی دوسری ذیلی تنظیموں کے پاس ایسا لگتا ہے کہ یہی صرف ایک کام رہ گیا کہ کسی نہ کسی طریقہ سے مسلمانوں کو بدنام کرو، بھولے بھالے ہندوؤں کو ان کے خلاف اشتعال دلاؤ، اکساؤ اور پھر انہیں مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہوئے بڑی بے فکری سے اقتدار کے مزے لوٹتے رہو۔ ان لوگوں کو حقیقت میں دیکھا جائے تو اپنے ملک اور عوام بالخصوص ہندوؤں کے مفادات ان کی ترقی و خوشحالی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ دلچسپی ہے تو صرف اپنے مفادات سے، یہ لوگ ہندوؤں کو مسلسل بے وقوف بنا رہے ہیں۔ کبھی کشمیر فائلز کے ذریعہ عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا گیا تو کبھی دی کیرالہ اسٹوری کے ذریعہ طوفان بدتمیزی برپا کیا جارہا ہے۔ ہاں ہم بات کررہے تھے کہ یہ فلم مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے تیار کی گئی۔ کب ٹیزر اور پرموشن مہم میں دعوی کیا گیا کہ 32 ہزار لڑکیوں نے دامن اسلام میں پناہ لے کر آئی ایس آئی ایس میں شمولیت اختیار کی تب کیرالہ کی ریاستی حکومت سے لے کر سماجی جہدکاروں اور سیکولر سیاستدانوں نے اس کی نہ صرف شدید مذمت کی بلکہ فلم کے ڈائرکٹر اور پروڈیوسر کو چیلنج کردیا کہ وہ 32 ہزار تو دور کی بات ہے کیرالہ سے تعلق رکھنے والی 32 لڑکیوں کی جب تفصیلات پیش کرے اور کروڑہا روپے انعام حاصل کرے۔ اس چیلنج سے خوفزدہ ہوکر فلم کے ڈائرکٹر اور پروڈیوسر نے ایک اور ٹیزر جاری کیا جس میں 32 ہزار کی بجائے 3 لڑکیوں کی کہانی لکھا گیا۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ جان بوجھ کر جھوٹ اور بے بنیاد فرضی کہانیوں کا سہارا لے کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح کے ملک دشمن اور عوام دشمن عناصر کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہئے۔ بڑی افسوس بلکہ شرم کی بات یہ ہیکہ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی بھی اپنے باوقار عہدہ کی عزت و حرمت مقام و مرتبہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوام کو فلم دی کیرالہ اسٹوری دیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں یہ فلم جھوٹ جھوٹ اور صرف جھوٹ پر مبنی ہے۔ اگر حقیقت پر مبنی کہانی دیکھنا ہوتو پھر ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی آبائی ریاست گجرات چلئے، حال ہی میں اسپیشل کرائم ریکارڈ بیورو نے اعداد و شمار پر مبنی ایک ایسی رپورٹ جاری کی جو شاید ملک میں ہندو۔ مسلم اتحاد کو نقصان پہنچاکر اور عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرکے اپنا الو سیدھا کرنے والے فرقہ پرستوں کے ڈروانے و بد صورت چہرے پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ یہ دی کشمیر فائلز یا پھر دی کیرالہ اسٹوری جیسی جھوٹی اور فرضی کہانیوں پر مبنی کو ئی فلم نہیں بلکہ مودی جی اور امیت شاہ جی کے منہ چڑاتی تلخ حقیقت ہے اور وہ حقیقت یہ ہیکہ گزشتہ 5 برسوں میں صرف اور صرف گجرات سے 41,621 خواتین اور لڑکیاں لاپتہ ہوئی ہیں ہوسکتا ہے کہ مودی جی کی ریاست سے تعلق رکھنے والی ان لڑکیوں کو ملک کے دیگر حصوں میں گندگی پھیلا رہے بازار حُسن کی زینت بنا د دیا گیا یا پھر دار الحکومت دہلی اور ملک کے بڑے شہروں میں گھروں میں کام کاج کے لئے یا پھر زرعی ریاستوں میں کھیت کھلیانوں میں کام پر لگا دیا گیا ہو اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہ اس شخصیت کی آبائی ریاست میں ہو رہا ہے جس نے ’’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘‘ کا نعرہ دیا اور ان کی ریاست سے 5 برسوں میں 41,621 خواتین و لڑکیوں کا لاپتہ ہو جانا ان کے نعرے کی پول کھول کر رکھ دیتا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے یہ اعداد و شمار گودی میڈیا کو چھوڑ کر دیانتدار و ذمہ دار میڈیا آؤڈ لیٹس اور سوشل میڈیا میں بڑی تیزی سے وائرل ہوئے۔ این سی آر بی کے مطابق سال 2016 میں 7105 سال، 2017 میں 7712، سال 2018 میں 9246، سال 2019 میں 9268 لڑکیاں اور خواتین لاپتہ ہوئی ہیں جبکہ سال 2020 میں گجرات سے لاپتہ خواتین اور لڑکیوں کی تعداد 8920 رہی۔ اس طرح ان 5 برسوں میں مودی جی کی ریاست سے 41,621 لڑکیاں و خواتین لاپتہ ہوئیں۔ حیرت و تعجب کی بات یہ ہیکہ ہمارے وزیر اعظم کو گجرات سے لاپتہ 40 ہزار سے زائد ماؤں، بہنوں اور بیٹیوںکی فکر نہیں جبکہ 3 لڑکیوں پر مبنی فلم کو مکاری کے ذریعہ 32 ہزار لڑکیوں کی کہانی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرکے پیش کی جانے والی فلم کی فکر ہے۔ کیا یہ جھوٹ و دروغ گوئی کے سہارے نفرت پھیلانے والوں کے لئے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا وقت نہیں ہے؟ کاش ہمارے وزیر اعظم دی کیرالہ اسٹوری کی تائید و حمایت کرکے اس کے پروموشن میں حصہ لینے کی بجائے گجرات کی لاپتہ بیٹیوں کی فکر کرتے تو کتنا بہتر ہوتا۔ دی وائر میں بھی اس تعلق سے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں انکشاف کیا گیا کہ 2021 میں ریاستی حکومت نے اسمبلی میں ایک بیان دیا تھا جس کے مطابق احمدآباد اور ودودرا میں 2019-20 کے دوران 4722 لڑکیاں اور خواتین لاپتہ ہوئیں۔ دی انڈین ایکسپریس میں شائع رپورٹ میں ایک سابق آئی پی ایس عہدہ دار کے حوالہ سے بتایا گیا کہ بعض واقعات میں دیکھا گیا ہیکہ لڑکیوں اور خواتین کو دوسری ریاستوں اور خود گجرات میں رکھ کر جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے اگر اس طرح کے واقعات کو قتل کے واقعات کی طرح سنجیدگی سے لیا جائے تو بہتر ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ اس طرح کے واقعات میں لڑکیوں اور خواتین کو مختلف جھانسے دے کر دوسری ریاستوں میں فروخت کردیا جاتا ہے اور انسانی اسمگلنگ کے کئی گروہ سرگرم ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی ڈائرکٹر 5 سال کے دوران گجرات سے لاپتہ لڑکیوں اور خواتین پر فلم بنائے گا اور اسے بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نام دے گا تو کیا وزیر اعظم اس فلم کی بھی حمایت کریں گے؟ بہرحال ’’اپنے کو آپ اور دوسروں کو تو‘‘ کہنے یا پھر حقیر سیاسی مفادات کی تکمیل اور عارضی اقتدار کے مزے لوٹنے کے لئے جھوٹ، نفرت پھیلانے سے اچھا ہے کہ اچھے انسان بن کر انسانیت کا پرچم بلند رکھیں تب ہی ہم انسان کہلانے کے قابل ہوں گے ورنہ …