مودی حکومت کے بلند بانگ دعوے اور معیشت کا زوال

   

وینکٹ پارسا
ایسا لگتا ہے کہ اقتصادی شعبہ میں بدانتظامی، مودی حکومت کی واحد اور تاریخی علامت بن گئی ہے اور فی الوقت ہندوستان، مودی حکومت کے تحت اقتصادی شعبہ میں تاریخ کے اس بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی یہی چاہتے ہیں کہ لوگ انہیں ایک غیرمعمولی لیڈر سمجھیں اور وہ خود ایک غیرمعمولی لیڈر بننے کے خواہاں ہیں۔ وہ اپنی جگہ صحیح ہوسکتے ہیں، لیکن منفی وجوہات کے باعث جیسے اقتصادیات روبہ زوال ہیں اور معاشی حالت تباہی و بربادی کی جانب رواں دواں ہے۔ حالیہ عرصے کے دوران جو تازہ ترین اعداد و شمار منظر عام پر آئے ہیں، اس نے ایسے حیرت انگیز انکشافات کئے، جس سے ہم ہندوستانی حیرت میں غرق ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے کابینی رفقاء یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ مودی حکومت نے ملک کو معاشی طور پر مستحکم کیا ہے، لیکن پچھلے سات برسوں کے دوران اقتصادی شعبہ جس انداز میں متاثر ہوا ہے، اس کے بعد معیشت کے مستحکم ہونے کا دعویٰ کرنا تعجب خیز ہے۔ مودی کی حکمرانی میں 23 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے۔ معاشی لحاظ سے اس دور کو بدترین دور کہا جاسکتا ہے کیونکہ 1979-80ء میں جنتا پارٹی حکومت کے بعد پہلی مرتبہ بی جے پی کی حکومت میں سال 2021ء کے دوران ہندوستان میں منفی نمو یعنی منفی 7.3% نمو درج ہوا ہے۔ ایک ایسی حکومت جو خود بلند بانگ دعوے کرتی ہے اور فیصلہ کن اقدامات کرنے کا کریڈٹ اپنے سر لیتی ہے یہ حالات اس کیلئے اور سارے ملک کیلئے بے چین و بے قرار کرنے کیلئے کافی ہیں۔ ایک طرف مودی حکومت، معاشی استحکام کے دعوے کرتی ہے تو دوسری طرف ورلڈ بینک ان دعوؤں کو جھٹلاتا نظر آتا ہے۔ عالمی بینک نے جو تجزیہ کیا ہے، یا ملک کی معیشت کا جائزہ لیا ہے، اس کے مطابق کانگریس کی زیرقیادت یو پی اے حکومت نے 2004-14ء ملک پر حکمرانی کی اور اُن 10 برسوں کے دوران 27 کروڑ لوگوں کو جو خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے، اوپر لایا ، یعنی انہیں غربت کے دلدل سے نکالا گیا۔ کانگریس حکومت کے دوران ملک کی قومی مجموعی پیداوار 8% کی شرح نمو پر تھی۔

وزیراعظم نریندر مودی ’’کانگریس سے پاک بھارت‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ ایسے میں یہی لگتا ہے کہ وہ ہندوستان کی معاشی نمو اور ترقی کے معاملے میں بہت کم حقیقت سے واقف ہیں۔ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مودی حکومت میں معاشی نمو پٹری سے اُتر گیا۔ انہوں نے ایک واحد کارنامہ انجام دیا اور وہ کارنامہ یہ ہے کہ اچھی خاصی معیشت کو جو بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی، پٹری سے اتار دیا۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ کورونا وائرس کی وباء نے معیشت کو روبہ زوال کیا ہے، ایسا نہیں ہے۔ کورونا وائرس کے پھوٹ پڑنے سے پہلے ہی معیشت لڑکھڑا گئی تھی۔ ہاں! یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وباء نے صرف معاشی بحران کو بدتر کیا ہے، لیکن مودی حکومت نے جس نااہلی اور بے حسی کا مظاہرہ کیا، اس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ معاشی بحران کو بدترین بنانے میں اس کا بھی اہم کردار ہے۔ خاص طور پر ایک ایسی حکومت جس کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایک ایسی قیادت فراہم کی ہے، جو ہمیشہ فیصلہ کن موقف اختیار کرتی ہے اور بے باکانہ فیصلے لینے کے معاملے میں شہرت رکھتی ہے۔ ماہرین اقتصادیات اور معاشیات کے طلبہ، صنعت کار و تاجرین یہاں تک کہ ہندوستان کا عام شہری بھی اس حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے کہ اقتصادی سست روی نے ہندوستان کو کورونا وباء کے پھوٹ پڑنے سے پہلے ہی اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ معاشی زوال کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھا، جب 8 نومبر 2016ء کو مودی نے اچانک نوٹ بندی کا اعلان کیا۔ پتہ نہیں حکومت کو کس نے یہ ناقص مشورہ دیا تھا۔ ایسا مشورہ جس نے ہندوستانی معیشت کو متزلزل کردیا۔ اس کے بعد مودی حکومت نے اچانک فیصلہ کرتے ہوئے جی ایس ٹی پر عمل آوری شروع کردی اور جی ایس ٹی نے ہندوستان کی معیشت کی تباہی کو یقینی بنا دیا۔ اُس وقت سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی پر عمل آوری کے خلاف انتباہ دیتے ہوئے یہ واضح کردیا تھا کہ حکومت کے یہ اقدامات تباہ کن ثابت ہوں گے لیکن مودی حکومت نے منموہن سنگھ جیسے عالمی شہرت یافتہ ماہر اقتصادیات کا انتباہ قبول کرنے کے بجائے اسے نظرانداز کردیا اور پھر جس طرح توقع کی جارہی تھی، اسی کے عین مطابق ہندوستانی معیشت بدترین حالات کا شکار ہوگئی۔ 2017ء سے دیکھیں تو مسلسل گیارہویں سہ ماہی میں اقتصادی زوال دیکھا گیا ہے۔ مودی حکومت اس زوال کو روکنے کیلئے حل تلاش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ سطور بالا میں ہم نے مودی حکومت کے دو احمقانہ فیصلوں اور جی ایس ٹی کا حوالہ دیا۔ ان فیصلوں نے جہاں ہندوستانی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی، وہیں ملک میں بیروزگاری کی شرح بھی اپنے عروج پر پہنچ گئی اور بیروزگاری کی یہ شرح 11% کے آس پاس آگئی۔ لوگوں کی آمدنی میں خطرناک حد تک کمی آگئی۔ مینوفیکچرنگ شعبہ بھی شرید متاثر ہوا اور مینوفیکچرنگ کی شرح بھی گرگئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چھوٹی و متوسط اور مائیکرو انٹرپرائزیز (MSME) بند ہوگئیں۔ اور یہ سب کچھ کورونا وباء کے پھوٹ پڑنے سے پہلے ہوچکا تھا۔ ایسے میں یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث معیشت متاثر ہوئی ہے۔

اب چلتے ہیں کورونا وائرس وباء کی پہلی لہر کی طرف۔ سال 2020ء میں کورونا کی پہلی لہر کا ہم نے سامنا کیا اور اس وقت معاشی بحران مزید گہرا ہوچکا تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے بناء کسی منصوبے لاک ڈاؤن نافذ کردیا۔ اس لاک ڈاؤن سے صورتحال میں بہتری آنے کے بجائے صورتحال مزید ابتر ہوگئی۔ خاص طور پر چھوٹے کاروبار بری طرح متاثر ہوگئے۔ لاکھوں کی تعداد میں چھوٹی، متوسط اور مائیکرو صنعتیں بند ہوگئیں۔ مودی نے لاک ڈاؤن کا اچانک فیصلہ کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کو ہزاروں کیلومیٹر پیدل چل کر اپنے آبائی مواضعات پہنچنا پڑا، اس دوران بھی کئی المناک واقعات پیش آئے اور پھر ہندوستان میں کروڑہا لوگ روزگار سے محروم ہوگئے۔ اس طرح کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ تو پہلی لہر کی بات تھی، لیکن جاریہ سال یعنی 2021ء میں کورونا کی دوسری لہر آئی اور مودی حکومت نے بڑے فخر کے ساتھ یہ اعلان کردیا کہ اس نے کورونا پر فتح پالی ہے اور پھر مودی حکومت اور اس کے وزراء ایک دوسرے کی پیٹھ ٹھونکنے لگے، مبارکبادی کے پیامات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بی جے پی قائدین اور مرکزی وزراء مودی حکومت کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگے اور ہر طرف وہ لوگ فتح کے نشان بنانے لگے ، لیکن حقیقت کچھ اور ہی تھی۔ ایک طرف یہ لوگ کورونا وائرس پر قابو پانے کا دعویٰ کررہے تھے، جشن منائے جارہے تھے ، قراردادیں منظور کی جارہی تھیں اور مودی کو ایک دانشمند عالمی لیڈر کے طور پر اُبھارا جارہا تھا تو دوسری طرف اقتصادی صورتحال بد سے بدتر ہورہی تھی حالانکہ اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ بگڑتی معاشی صورتحال کو سدھارنے کیلئے مناسب اور مثبت اقدامات کئے جاتے، لیکن یہ لوگ تو ایک دوسرے کو شاباشی دینے میں مصروف تھے۔ آپ کو بتا دوں کہ سنٹر فار نٹگرنگ انڈین اکنامی (سی ایم آئی اے) کے مطابق جاریہ سال جنوری تا اپریل تقریباً ایک کروڑ لوگ ملازمتوں سے محروم ہوگئے۔