مودی‘ قوم پرستی‘ حکومت کی کارکردگی کا ریکارڈ‘ دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے بی جے پی کی حکمت عملی

,

   

دوروز قبل الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ لوک سبھا2019الیکشن کے لئے 11اپریل سے رائے دہی شروع کی جائے گی‘ دنیا کی سب سے عظیم جمہوری تہوار کے لئے سات مراحل میں رائے دہی کا بھی کیااعلان

بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)11اپریل سے شروع ہونے والے الیکشن کے میدان میں اس امید کے ساتھ اتر رہی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کے دوسری معیاد کے لئے اس کو جیت ملے گی۔

راجستھان ‘ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں پچھلے ڈسمبر کانگریس سے مقابلے کے دوران ملی شکست کے بعد پارٹی کے اندر خوف کا فطری عمل ہے‘ اوردوسرا خدشہ پچھلے ایک سال سے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے عظیم اتحاد کی تشکیل کی کوششیں بھی بی جے پی کے لئے فکر پیدا کررہی ہے۔

تاہم بی جے پی کے حکمت عملی سازوں کا اب کہنا ہے کہ حکومت14فبروری کے روز پیش ائے پلواماں دہشت گرد حملے کا جواب حالات کو تبدیل کرنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ سال2019کے لئے برسراقتدار پارٹی کی مہم تین بنیادوں پر ہوگی۔ مودی کی قیادت بمقابلہ حزب اختلاف خیمہ میں’’ افرتفری‘‘۔

حکمرانی میں مودی کا ریکارڈ ’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘ کی عنوان پر کے ذریعہ یہ کام کیا جائے گا‘ او رساتھ میں سابق کی یوپی اے حکومت کی ناکامیوں ‘ اور قومی پرستی بمقابلہ دہشت گردی کے خلاف جوابی کاروائی کے متعلق اپوزیشن کا نرم رویہ ۔

بی جے پی کے راجیہ سبھا ایم پی اور میڈیا سل کے ہیڈر ان بولانی نے کہاکہ’’ ہم نے پوری تیاری کرلی ہے‘‘۔بی جے پی کے ایک جنرل سکریٹری نے کہاکہ پچھلے پانچ سالوں میں مودی حکومت اور بی جے پی نے دو محاذوں پر کام کیاہے۔

پہلا اس کی اعلی ذات والی برہم بنیا پارٹی کی امیج کو ختم کرنے دیگر پسماندہ طبقات کے حلقوں میں اضافہ ۔ سرکاری اسکیموں کے ذریعہ ایسے گروپس کو فائدہ پہنچایاگیا اور بڑے نوٹوں پر امتناع عائد کرتے ہوئے اس کو دولت مندوں کے خلاف لڑائی کے طور پر پیش کیاہے۔

مودی حکومت نے غریبوں کے لئے بڑا ہلت کیر نظام فراہم کیاہے‘ کئی گھروں میں پکوان گیاس کے کنکشن پہنچائے گئے اور پنشن پلان کے ذریعہ ان کی سوشیل سکیورٹی کو مستحکم کیاگیا۔ان تمام میں حکومت کا کہنا ہے کہ 220ملین لوگوں کو اس پروگرام کے تحت فائدہ پہنچا ہے۔

دوسرا بی جے پی نے اپنی علاقے کو وسعت دینے کاکام کرتے ہوئے ان علاقوں میں اپنے پیر پھیلائے ہیں جہاں پرروایتی طور سے وہ کمزور رتھی۔

مغربی بنگال اور اڈیشہ میں پوری طاقت کے ساتھ بی جے پی نے زورلگایا ہے مگر کیرالا اور تاملناڈو جیسی ریاستوں میں پارٹی کو مشکلات کا سامنا ہے۔

سابق مرکزی وزیر شہنواز حسین نے کہاکہ ’’ ہم سال2014سے کہیں زیادہ مضبو ط ہیں۔ امیت شاہ نے پارٹی میں ایک نئی جان ڈال دی ہے‘‘۔

مگر بی جے پی کو کچھ چیالنجس کا سامنا بھی کرنا ہے۔جہاں تک اترپردیش‘ مدھیہ پردیش‘ راجستھان‘ چھتیس گڑ‘ جھارکھنڈ‘ ہماچل پردیش‘ اتاراکھنڈ اور دہلی میں 2014میں مظاہرہ کیاتھا۔

مذکورہ پارٹی نے ان ریاستوں سے175میں136سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔اس کے علاوہ بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے نے مہارشٹرا ‘بہار اور آندھرا پردیش میں بھی 113میں 90سیٹوں پر ایک بڑی جیت درج کرائی تھی۔

اس کے بعد سے مدھیہ پردیش ‘ راجستھان او رچھتیس گڑھ میں کانگریس کے ہاتھوں بی جے پی کو شکست ہوئی ہے اترپردیش میں روایتی مخالف پارٹیاں متحد ہوئی ہیں۔

سنٹر ریفارمس‘ ڈیولپمنٹ اینڈ جسٹس کے صدر سدھارتھ مشرا نے کہاکہ’’ حزب اختلاف کا اتحاد بی جے پی کے لئے چیالنج ہے ‘ بالخصوص اترپردیش اور مہارشٹرا جیسی ریاستوں میں۔

سال 2014کے مقابلہ بی جے پی کی حکومت دیگر بہت ساری ریاستوں میں ہے‘ اگر مقامی مخالف لہر کام کرتی ہے تو بی جے پی کومشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے‘‘۔