مودی پرانے خواب ہی بیچ رہے ہیں

   

روش کمار
زراعت سے جڑے تین نئے قوانین (بلز کی منظوری) کو لیکر وزیر اعظم نریندر مودی خواب دکھا رہے ہیں۔ وہی خواب ہ 2016 میں E-NAM کو لیکر دکھاچکے ہیں۔ 16 اپریل 2016 کو ای ۔ نام اسکیم کا آغاز ہوا تھا۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں وزیر اعظم مودی نے جو کہا تھا وہی باتیں اس بار بھی کہہ رہے ہیں۔ وہ خواب ناکام ہوگیا اس کے بعد بھی مودی جی اُس خواب کو اس بار دکھا رہے ہیں۔ ملک کے کسانوں کو 14 اپریل 2016 کا ان کا خطاب سننا چاہئے۔ جس میں انہوں نے کہا ’’ایسی صورتحال ہے جس صورتحال کی طرف جو ہول سیلر ہیں ان کا بھی نمو ہونے والا ہے، اتناہی نہیں یہ ایسی اسکیم ہے جس سے صارفین کو اتناہی فائدہ ہو، درمیانی افراد جو بازار کا کاروبار لیکر بیٹھے ہیں مال لیتے ہیں اور اسے فروخت کرتے ہیں ان کو بھی فائدہ ہو اور کسان کو بھی فائدہ ہو‘‘۔ (وزیر اعظم مودی کا خطاب 14 اپریل 2016) اپنے خطاب کے اس حصہ میں وہ درمیانی افراد کے فائدہ کی بھی بات کررہے ہیں کیا کمال کا خواب بیچا کہ E-NAM سے سب کو فائدہ ہوگا۔ کسان تاجرین درمیانی افراد اور صارفین تمام کو فائدہ حاصل ہوگا۔ دہلی کے وگیان بھون میں عہدہ داروں اور زرعی ماہرین کو جس پر اعتمادی سے یہ خواب بیچا کہ E-NAM سے کیرالا کا کسان بنگال کے کسان سے مال خریدلے گا۔ ویسا کوئی نہیں کرسکتا ہے۔ E-NAM کو چار سال ہوچکے ہیں چار سال کوئی مختصر عرصہ نہیں بلکہ ایک طویل عرصہ ہوتا ہے کہ ان کی تقاریر کے مطابق کسانوں کی زندگیوں میں تبدیلی آئی کے نہیں آئی۔ چار سال کا وقت یہ سمجھنے کے لئے کافی ہوتا ہے کہ E-NAM ہے کیا۔ آج جب تین زرعی قوانین کی مدافعت میں وہ خطاب کررہے ہیں تو E-NAM غائب ہوچکا ہے مگر یہاں سے وہاں لے جاکر مال فروخت کرنے کا خواب وہ تب بھی دکھا رہے تھے اور اب بھی دکھا رہے ہیں۔ اگر یہ تسلیم کرلیں کہ بنگال سے چاول خریدنا ہے اور کیرالا کو چاول کی ضرورت ہے تو بنگال کا کسان آن لائن جائے گا اور دیکھے گا کہ کیرالا کی کونسی منڈی ہے جہاں پر اس معیار کا چاول چاہئے۔ اتنی قیمت ملنے کے امکانات ہیں تو وہ آن لائن ہی کہے گا کہ بھائی میرے پاس اتنا مال ہے اور میرے پاس یہ سرٹیفکیٹ ہے اور مال اعلیٰ معیار کا ہے۔ بتائیے آپ کو چاہئے ! اگر کیرالا کے تاجر کو محسوس ہوگا کہ بھائی 6 لوگوں میں یہ ٹھیک ہے تو معاملت کرے گا اور اپنا مال منگوائے گا۔ (وزیر اعظم مودی 14 اپریل 2020) اب آپ وزیر اعظم کا 21 ستمبر 2020 کے بیان کا اقتباس دیکھئے۔
14 اپریل 2016 اور 21 ستمبر 2020 کے ان کے خطاب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہندوستان میں 7 ہزار منڈیاں ہیں پہلی بات یہ کہ منڈیوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہونی چاہئے۔ مگر چار برسوں میں ڈیجیٹل انڈیا کا نعرہ صبح و شام جپنے والی حکومت جملہ ایک ہزار منڈیوں کو بھی E-NAAM سے نہیں جوڑ پائی تاکہ دربھنگہ کا کسان پانی پت کے کسان کو مکھانہ فروخت کرسکے اس کا بھی حال بتاتا ہوں۔

4 جنوری 2019 کو گجیندر سنگھ شیخاوت نے راجیہ سبھا میں بیان دیتے ہیں کہ 31 مارچ 2018 تک ملک میں جملہ 585 منڈیوں کو E-NAAM سے مربوط کیا گیا ہے۔ 2019-20 تک اس میں مزید 415 منڈیوں کو جوڑ نے یا مربوط کرنے کی منظوری مل گئی ہے۔ دیڑھ سال سے زائد عرصہ گذر جاتا ہے 2 اپریل 2020 کو وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کہتے ہیں کہ 415 منڈیوں کو ای۔ نام سے جوڑا جائے گا۔ جیسے کہ اس سے مربوط منڈیوں کی جملہ تعداد 1000 ہو جائے گی۔ مطلب 31 مارچ 2018 کے بعد حکومت ہی ای ۔ نام اسکیم کو کنارے لگادیا تھا جس کے آغاز کے وقت وزیر اعظم نے ملک کے کسانوں کو ڈھیر سارے سپنے دکھائی تھے اگر ایسا نہیں ہوتا تو مودی سرکار کے وزیر ایک ہی بات نہیں کرتے کہ E-NAM سے 415 منڈیوں کو جوڑا جائے گا۔ آپ 14 اپریل 2016 کے ان کے بیان کو غور سے پڑھئے یہ انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔ آپ کو پتہ چلے گا کہ گول مٹول باتیں بنا رہے ہیں کہیں سے کچھ بھی یقینی نہیں ہے۔ ایک ہی بات بار بار کی کہ کیرالا کا کسان بنگال والے کو فروخت کرے گا لیکن یہ نہیں بتاتے کہ کیرالا اور بنگال کے درمیان موز یا آلو کو لیکر قیمت میں کتنا فرق ہوگا کہ وہ ہزاروں روپے ٹرک کا کرایہ بھی دے دیگا۔
سب کو پتہ ہے کہ کسانوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے تو کچھ بھی کہہ دو۔ 6 مارچ 2020 کو وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ ای ۔ نام سے 1.66 کروڑ کسان جڑچکے ہیں۔ 9 جولائی 2019 کو حکومت نے بتایا تھا کہ 30 جون 2019 تک ایک کروڑ 64 لاکھ کسان ای ۔ نام سے جڑ گئے ہیں۔ یعنی ایک سال میں دو لاکھ نئے کسان ہی اس پلیٹ فارم سے جڑتے ہیں۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں کسانوں کی تعداد 11 کروڑ سے زائد تسلیم کی جانی ہے اور 4 سال میں E-NAM سے صرف 2 کروڑ کسان بھی نہیں جڑسکے ہیں۔ E-NAM کیوں ناکام ہوا؟ کیوں حکومت E-NAM سے تمام منڈیوں کو نہیں جوڑسکی۔ جو حکومت تین سال میں ملک کے 6 لاکھ گاؤں کو آپٹکل فائر جوڑنے کا اعلان کرتی ہے وہ حکومت چار سال میں ملک کی 7000 منڈیوں کو انٹرنیٹ کے ڈھانچہ سے نہیں جوڑ پائی ویسے 1.5 لاکھ گاؤں میں بھی آپٹکل فائبر کسی طرح گھسیٹ گھسیٹ کر ہی پہنچا اور جہاں پہنچا ہے وہاں بھی اس کی حالت خراب ہی ہے۔ چار سال گذر گئے ہیں یہ طویل عرصہ ہے جب کسانوں کو لیکر انٹرنیٹ سے پورے ملک کی منڈی سے جوڑنے کا تجربہ ہوتا مگر چار سال میں صرف چند کسانوں کو یہ تجربہ حاصل ہوا ۔ آج بھی زیادہ تر کسانوں نے E-NAM کا نام بھی نہیں سنا ہے۔ 14 اپریل 2016 کو وزیر اعظم نے ایک کام کی بات کہی تھی کہ کسان جب سامنے سے دیکھ لیتا ہے تب بھروسہ کرتا ہے مگر چار سال بیت گئے E-NAM سامنے سے دکھا ہی نہیں۔