مودی پر دیوانگی طاری ہار کے خوف سے بوکھلاہٹ بڑھی

   

ظفر آغا
پہلے گھبراہٹ، پھر بوکھلاہٹ اور اب دیوانگی۔ نریندر مودی کے انداز اور چال ڈھال سے اب بوکھلاہٹ ٹپک رہی ہے۔ اور کیوں نہ ہو! اقتدار چیز ہی ایسی ہے کہ اس کے ہاتھوں سے نکل جانے کا ڈر کسی کو بھی بوکھلا سکتا ہے۔ نریندر مودی کے دل و دماغ پر اب وہی خوف طاری ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اب دیوانوں جیسی باتیں کر رہے ہیں۔ سالوں پرانے مرے مردے اکھاڑنے کا اب کوئی وقت ہے کیا! یہ مودی کی دیوانگی نہیں تو اور کیا ہے کہ آنجہانی راجیو گاندھی پر پھر سے بوفورس کے نام پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ ارے بھائی راجیو گاندھی کے انتقال کو 28 برس گزر گئے۔ دہلی ہائی کورٹ 18 برس قبل بوفورس معاملے میں ان کو باعزت بری کر چکا۔ اس وقت اٹل بہاری واجپئی حکومت برسراقتدار تھی۔ اس حکومت نے اس معاملے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ سی بی آئی کے پاس کوئی ثبوت ہی نہیں تھا۔ جب مودی صاحب 2014 میں اقتدار میں آئے تو حضرت اس معاملے کو سپریم کورٹ لے کر پہنچے۔ سپریم کورٹ نے عرضی خارج کر دی۔ مگر مودی ہیں کہ ماننے کو راضی ہی نہیں۔ اب پھر وہی بوفورس کا رونا۔ یہ دیوانگی نہیں تو اور کیا ہے!
مودی کو اقتدار ہاتھ سے جاتا صاف نظر آرہا ہے۔ اب غور فرمائیے کہ الیکشن کی زمینی صورت حال کیا ہے۔ اس مضمون کے لکھے جاتے وقت پانچ مرحلوں کا چناؤ ہوچکا تھا اور ہر مرحلے میں بی جے پی پیچھے ہوتی چلی جا رہی تھی۔ مودی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اتر پردیش بن گیا تھا۔ صوبہ اتر پردیش کی کل 80 سیٹوں میں سے 71 بی جے پی اور 2 اس کے حلیف کو ملی تھیں، یعنی مودی کل 73 سیٹیں یہاں سے پچھلی بار جیتے تھے۔ یعنی بی جے پی کی کل سیٹوں میں سے تقریباً ایک چوتھائی سیٹیں یو پی سے آئی تھیں۔ لیکن اس بار صورت حال بالکل الٹی ہے۔ سنگاپور کی ایک ڈاٹا تجزیہ ساز کمپنی جو اتر پردیش چناؤ کا مرحلہ وار تجزیہ کر رہی ہے، اس کے مطابق اتر پردیش میں بی جے پی کے خلاف ایک ’زلزلہ‘ آچکا ہے۔ وہاں بی جے پی کو اس بار 20 سے بھی کم سیٹیں ملنے کی امید ہے۔ یعنی محض اتر پردیش سے بی جے پی کو کم از کم 50 سیٹوں کا خسارہ ہونے کا امکان ہے۔ بات یہ ہے کہ سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے اتحاد سے زیادہ تر پسماندہ اور دلت ذاتیں اس اتحاد کو ووٹ کر رہی ہیں۔ پھر یو پی کا مسلمان بھی عقلمندی سے بی جے پی کو ہرانے والے نمائندہ کو ووٹ دے کر یو پی میں بی جے پی کے تابوت میں کیل ٹھوک رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ مودی کو اس نے دیوانہ کر دیا ہے۔

سنہ 2014 مودی کا الیکشن تھا۔ ایک اتر پردیش ہی نہیں بلکہ تمام ہندی بولے جانے والے علاقہ میں مودی کا ڈنکا بج رہا تھا۔ مثلاً دہلی کی تمام 7 سیٹیں بی جے پی نے جیتی تھیں۔ راجستھان کی 26 کی کل 26 سیٹیں بی جے پی کو ملی تھیں۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس کو محض دو سیٹیں ملی تھیں۔ باقی تمام سیٹیں بی جے پی کے کھاتے میں گئی تھیں۔ یہی حال چھتیس گڑھ، بہار اور جھارکھنڈ میں تھا۔ ان تمام صوبوں میں 80 فیصد سے زیادہ سیٹیں بی جے پی کی تھیں۔ پھر ہریانہ، پنجاب اور ہماچل پردیش میں بھی بی جے پی اور اس کے حلیفوں کا پرچم لہرا رہا تھا۔ مگر اس بار صورت حال بدل چکی ہے۔ مبصرین کے مطابق ان تمام صوبوں میں کم از کم بی جے پی کو 50 فیصد سیٹوں کا نقصان یقینی ہے۔ یعنی یو پی گیا اور باقی ہندی علاقہ بھی خسارے میں۔ یعنی مشکل اور بڑھ گئی۔
اب چلیے ذرا جنوبی ہندوستان۔ کیرالا میں کل 20 سیٹوں میں سے ایک سیٹ بھی بی جے پی کو ملتی نہیں نظر آرہی ہے۔ برابر میں تامل ناڈو کی 39 سیٹوں میں کانگریس اور اس کی حلیف ڈی ایم کا پرچم لہرائے گا۔ کرناٹک میں کانگریس اور جے ڈی (ایس) اتحاد کے بعد بی جے پی کو پچھلی بار (17) سے کم سیٹیں ہی ملیں گی۔ اب رہا آندھرا اور تلنگانہ، تو ان دونوں صوبوں کو ملا کر بی جے پی کو دو چار سیٹیں مل جائیں تو غنیمت جانیے۔ یعنی ہندی علاقہ کا خسارہ جنوبی ہندوستان سے دور ہونا تودور، یہاں بھی نقصان بڑھ ہی رہا ہے۔
اب آئیے شمالی ہندوستان جو مودی کا مرکز ہے۔ یعنی گجرات و مہاراشٹر۔ پچھلی بار گجرات کی 26 میں سے 26 سیٹیں مودی نے جیتی تھیں۔ اس بار تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق وہاں کانگریس کو کم از کم 6 سیٹیں مل رہی ہیں۔ مہاراشٹر میں چناؤ کے اعلان کے وقت تک شیو سینا اور بی جے پی آپس میں دست و گریباں تھے۔ چناؤ میں ساتھ آگئے۔ لیکن زمین پر یہ اتحاد نظر نہیں آیا۔ پھر یہ وہ صوبہ ہے جہاں مودی سے پریشان کسانوں نے مودی کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔ اب بھلا وہ مودی کو ووٹ کیوں کریں گے۔ شرد پوار اور کانگریس کا اتحاد یہاں کافی مضبوط ہے۔ ساتھ ہی یہاں راج ٹھاکرے مودی کے خلاف تشہیر کر رہے تھے جو عوام میں مقبول ہیں۔ وہ کھل کر کہہ رہے تھے کہ کانگریس اور شرد کی این سی پی کو ووٹ ڈالیے۔ یعنی شمالی ہندوستان میں بھی مودی کمزور ہو چکے ہیں۔

اب بچا مشرقی ہندوستان، یعنی آسام، نارتھ ایسٹ اور بنگال کا علاقہ۔ اس کے بارے میں امیت شاہ چھ مہینوں سے شیخی بگھار رہے تھے۔ کہتے تھے کہ آسام اور نارتھ ایسٹ تو ہمارا ہے ہی، بنگال سے کم از کم 26 سیٹیں اور جیتیں گے۔ اب ذرا پہلے بنگال پر نگاہ ڈال لیجیے۔ صاحب وہاں تو ممتا دیدی نے مودی کے خلاف قہر ڈھا دیا۔ مودی نے وہاں چناؤ میں ہندوؤں کو بھڑکانے کے لیے کہا کہ ممتا کے راج میں تو درگا پوجا بھی مشکل ہو گئی۔ بس ممتا نے ہر تقریر میں ہندوؤں سے پوچھنا شروع کیا کہ بتاؤ درگا پوجا ہوتی ہے کہ نہیں، کالی پوجا ہوتی ہے کہ نہیں، عید اور رمضان منایا جاتا ہے کہ نہیں، کرسمس ہوتا ہے کہ نہیں۔ نیچے سے عوام ممتا کے ہر سوال پر ہاں، ہاں میں جواب دیتی ہے۔ یعنی ہندو-مسلمان کی کھائی پیدا ہونے کے بجائے ہندو-مسلم اتحاد پیدا ہو گیا۔ پھر وہاں کم از کم 25 فیصد مسلم آبادی ہے۔ وہ 90 فیصد ممتا کے پرچم تلے اکٹھا ہو گئی۔ یعنی بنگال میں بھی امیت شاہ کی تدبیریں الٹی پڑ گئیں اور وہاں بی جے پی کو پچھلی بار سے بھی کم سیٹوں پر صبر کرنا ہوگا۔ آسام اور نارتھ ایسٹ میں سٹیزن بل نے بٹوارا کر دیا۔ اس لیے ان علاقوں میں بھی 2014 جیسی حالت نہیں رہ گئی۔
اب بتائیے کہ نریندر مودی کہاں سے اقتدار میں آرہے ہیں۔ مشینوں میں کچھ الٹ پھیر ہو جائے تو نہیں کہا جا سکتا ہے۔ زمینی صورت حال تو یہ ہے کہ 2019 میں مودی کو دوبارہ وزیر اعظم نہیں بننا چاہیے۔ اب اس پس منظر میں مودی جیسا اقتدار کا بھوکا شخص دیوانہ جیسی حرکتیں نہیں کرے گا تو پھر اور کیا کرے گا۔ ابھی تو دیوانگی ذرا کم ہے۔ چھٹے اور آخری یعنی ساتویں مرحلے کے بعد تو دیوانگی کا یہ عالم ہوگا کہ نریندر مودی نہ جانے کیا اول فول بکنے لگ جائیں گے۔ بس دیکھیے آگے آگے ہوتا ہے کیا اور مودی کا حشر بنتا ہے کیا!