مودی کا بجٹ عوام کو ایک اور دھوکہ!

   

محمد ریاض احمد

مودی حکومت نے اپنا عبوری بجٹ 2019-20 پیش کردیا ہے۔ اس بجٹ کے بارے میں وزیر اعظم نریندر مودی، کارگذار وزیر فینانس پیوش گوئل اور صدر بی جے پی امیت شاہ کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے حامی صنعت کاروں، فلم اسٹاروں کا دعویٰ ہے کہ ایسا بجٹ کبھی پیش نہیں کیا گیا۔ اس سے قبل کہ ہم بجٹ پر اپنے خیالات تحریر کریں مودی اور ان کے حامیوں کے اس دعویٰ کے بارے میں کچھ قلمبند کرنا ضرور چاہیں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان لوگوں کا دعویٰ بالکل سچ ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ آزاد ہند کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا بجٹ پیش کیا گیا ہے جس میں بقول پیوش گوئل ’’گاؤ ماتا‘‘ کی بہبود کے لئے 750 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ پیوش گوئل نے پارلیمنٹ میں شرمائے بغیر یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کیا کہ مودی حکومت گائیوں کی عزت و احترام میں کوئی کسر باقی نہیں رکھے گی۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ مودی حکومت نے اپنے بجٹ میں گائے جیسی بے زباں جانور کا خیال رکھتے ہوئے دنیا کو یہ پیام دینے کی یہ کوشش کی ہے ہماری حکومت کس قدر انسانیت نواز ہے اور اس کے دل میں جانوروں کے تئیں غیر معمولی ہمدردی پائی جاتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ انتخابات سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی کے صدر امیت شاہ بھولی بھالی ہندوستانی عوام کا مذہبی استحصال کرنے کے لئے گائے کو اسی طرح استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس طرح امیت شاہ ہمیشہ بوتھ لیول کے بی جے پی کارکنوں کو ووٹ بٹورنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ نریندر مودی حکومت کے اس اقدام پر ہمیں کوئی حیرت بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی ہونی چاہئے کیونکہ اگر وہ گائے، بھینس، بیل، بلی، کتا، گدھوں کی بہبود کے لئے بھی بجٹ مختص کرتے تو انہیں کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ پچھلے ساڑھے چار برسوں کے دوران سارے ہندوستان نے اور ساری دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ جانوروں کے نام پر انسانوں کا قتل کیا جارہا ہے۔ اس عرصہ میں 50 سے قریب انسانوں کو گاؤ رکھشا کے نام پر قتل کردیا گیا جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ جہاں تک مسلمانوں یا اقلیتوں کی بہبود کا سوال ہے ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ لگانے والے وزیر اعظم نریندر مودی نے اقلیتی بہبود کے بجٹ میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا بلکہ پچھلے سال اقلیتی بہبود کا جو بجٹ 4700 کروڑ روپے تھا وہی برقرار رکھا گیا ہے۔ اسی طرح نریندر مودی حکومت کی ’’مسلم یا اقلیتی دوستی‘‘ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کہ مولانا آزاد فاؤنڈیشن کے بجٹ میں بھی کمی کردی گئی۔ پچھلے سال یہ بجٹ 134 کروڑ تھا اب کم کرکے اسے 81 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ اس کے برعکس درج فہرست طبقات و قبائل کے بجٹ کو جو مالی سال 2018-19 میں 62774 کروڑ روپے تھا بڑھا کر 76800 کروڑ کردیا گیا۔ یقینا ایس ٹی ایس سی کی مدد کی جانی چاہئے اور مسلمان اس کی تائید بھی کرتے ہیں لیکن مسلمان جو ملک کی 130 کروڑ آبادی کا 17 فیصد حصہ بنتے ہیں (غیر سرکاری اندازوں کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی آبادی 30 کروڑ سے زائد ہے) ان کے لئے جملہ بجٹ کا صرف 0.2 فیصد حصہ مختص کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے معاملہ میں نریندر مودی حکومت کو تلنگانہ کی ٹی آر ایس حکومت اور کرناٹک کی جنتادل (ایس) اور کانگریس کی مخلوط حکومت سے سبق سیکھنا چاہئے۔ تلنگانہ جس کی جملہ آباد 4 کروڑ ہے اس میں مسلمانوں کے لئے 2000 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ مودی حکومت کو یہ بھی جان لینا چاہئے کہ مسلمان ملک کی سب سے بڑی اقلیت بلکہ دوسری سب سے بڑی اکثریت ہے۔ اسے نظرانداز کرکے یا پھر قومی دھارے سے اسے الگ کرنے کی کوششیں کرتے ہوئے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو رہی مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کی بات۔ مودی حکومت نے کسانوں کی بہبود کے بھی بلند بانگ دعوے کئے ہیں۔ انہوں نے تلنگانہ کی کے سی آر حکومت کی جانب سے کسانوں کے لئے متعارف کروائی گئی ریتو بندھو اسکیم کی نقل کرتے ہوئے سالانہ کسانوں کو 6000 روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلہ میں صدر کانگریس راہول گاندھی اور سی پی ایم کے جنرل سکریٹری نے بڑا اچھا تبصرہ کیا۔ راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ مودی حکومت کسانوں کی توہین کررہی ہے۔ سالانہ 6000 روپے کی امداد دینے کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کسانوں کو یومیہ 17 روپے دے رہی ہے جبکہ ایک کسان کا گھر 3 تا 5 افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ تو رہی راہول کی بات لیکن اس نکتہ پر سنجیدگی سے غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ مودی حکومت کسانوں کے خاندانوں کو فی رکن یومیہ 3 روپے فراہم کررہی ہے جو کسانوں کی حقیقت میں توہین ہی ہے۔ یہ وہی کسان ہے جن کی محنت سے ہم ہندوستانیوں کے منہ میں نوالا پہنچتا ہے۔ مودی حکومت کے بجٹ میں انکم ٹیکس کی حد جو پہلے ڈھائی لاکھ روپے تھی اسے پانچ لاکھ روپے کردیا گیا ہے۔ اس اقدام سے متوسط طبقہ کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے گھروں اور فلیٹس کی خریدی پر جی ایس ٹی کم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ اس پر فی الوقت 12 فیصد جی ایس ٹی وصول کیا جارہا ہے۔ امید ہے کہ جی ایس ٹی کم ہونے پر ریئل اسٹیٹ کے شعبہ مستحکم ہوگا۔ ڈیفنس یا دفاعی شعبہ کے بجٹ میں بھی اضافہ کرتے ہوئے حکومت نے اسے 3 لاکھ کروڑ روپے کردیا ہے۔ پچھلے سال یہ بجٹ 2.85 لاکھ کروڑ روپے تھا۔ ویسے بھی دفاعی بجٹ میں ہر سال 20 فیصد کا اضافہ ہوتا ہے۔ مودی حکومت نے ہماری فوج پر کوئی احسان نہیں کیا ہے۔ اسے تو ہمارے ان بہادر جوانوں کی تنخواہوں اور ترغیبات میں کئی گنا اضافہ کرنا چاہئے جو سرحدوں پر اور بالخصوص سیاچن گلیشئر جیسے سرد ترین مقام پر اپنی زندگیوں کو خطرہ میں ڈال کر ملک و قوم کی حفاظت کررہے ہیں۔ جہاں تک سیاچن گلیشئر کا کا معاملہ ہے یہ دنیا کا بلند ترین میدان جنگ ہے۔ ہمارے ملک کو چین اور پاکستان سے ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے جبکہ داخلی خطرات میں سب سے بڑا خطرہ فرقہ پرستی کا ہے۔ حکومت نے دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا جو ہماری نظر میں ناکافی ہے۔ اگر حکومت ملک کے تحفظ کے لئے سنجیدہ ہے تو اسے سب سے پہلے بیرونی خطرات سے زیادہ داخلی خطرات کے خاتمہ پر توجہ دینی چاہئے اور اس کے لئے فرقہ پرستی اور فرقہ پرستوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہئے کیونکہ فرقہ پرست ایسے مہلک جراثیم کی مانند ہیں جو ملک کی ترقی و خوشحالی کو اسی طرح ہضم کرجاتے ہیں جس طرح دیمک لکڑی اور کتابوں کو کھا جاتی ہے لیکن مودی حکومت سے فرقہ پرستوں کے خلاف کارروائی کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی اور کیوں نہیں کی جاسکتی یہ ساری دنیا جانتی ہے۔ حال ہی میں ہم سب نے دیکھا ہیکہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کا اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کی لیڈر نے برسر عام پھر ایک بار قتل کیا ہے۔ ایسے ملک میں جہاں گاندھی جی کو مہاتما مانا جاتا ہے اور ساری دنیا ان کے پیام عدم تشدد کو احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اپنے لئے ایک سبق تصور کرتی ہے اسی سرزمین پر گاندھی جی کا مجسمہ بناتے ہوئے اس پر گولی چلانا اور پھر پتلے کو نذرآتش کرنا کسی ہندوستانی کا تو کام نہیں ہوسکتا بلکہ ملک کے دشمن اور غداروں کا کام ہوسکتا ہے۔ بہرحال ہم بجٹ کی بات کررہے تھے اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اس بجٹ کو ہوش کی بجائے جوش میں کیا گیا اقدام ہی کہا جاسکتا ہے۔ سابق وزیر فینانس چدمبرم نے بھی اچھا تبصرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ درصل Account for Vote ہے Vote on Accuunt نہیں ہے۔ اور مودی حکومت نے اسے انتہائی مایوسی میں اور لاپرواہی و تساہل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ پیوش گوئل نے بجٹ پیش کرتے ہوئے مودی حکومت کے کارناموں کو بیان کیا اور یہاں تک کہا کہ آئندہ پانچ برسوں میں ملک کی معیشت پانچ کھرب ڈالرس اور 8 برسوں میں 10 کھرب ڈالرس ہو جائے گی۔ اس معاملہ میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ معیشت چاہے کتنی ہی مستحکم کیوں نہ ہو اگر ملک میں فرقہ پرستی کو اسی طرح فروغ حاصل ہوتا رہا تو پھر کسی چیز کا فائدہ نہیں۔ بجٹ میں مودی حکومت نے بے روزگار نوجوانوں کو بالکل نظرانداز کردیا ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبہ پر بھی توجہ دینے سے گریز کیا ہے۔ صرف آیوشمان بھارت کا ذکر کیا گیا۔ حقیقت میں یہ سب کچھ جملہ بازی دکھائی دیتی ہے۔ بہرحال اس بجٹ کو ہم بحیثیت مجموعی گایوں کا بجٹ کہہ سکتے ہیں۔
mriyaz2002@yahoo.com