وزیراعظم مودی کاسب کاساتھ سب کاواشواس جو نعرہ ہے وہ بھی ایک پروپگنڈہ سے بڑھ کرکچھ نہیں دیتا کیونکہ یہ الفاظ ادا کرنا آسان ہوگا لیکن ان پر عمل آواری مشکل ترین اورسخت امتحان سے گزرنے کے مترادف ہے جو وزیراعظم نریندر مودی کے لئے آسان ہوگا۔
الغرض یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ وزیراعظم نریندر مودی 2014میں کئے گئے وعدوں کو مکمل نہیں کر پائے تو وہ کس طرح2019کے وعدوں کوپورا کر پائیں گے؟
دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت ملک ہندوستان میں لوک سبھا انتخابات میں شاندار کامیابی کے بعد وزیراعظم نریندر مودی پھر ایک مرتبہ ایسا نعرہ دیا ہے جو الفاظ کے اعتبار سے کافی پرکشش لگ سکتا ہے لیکن حقیقت میں اسے مکمل کرنے کے لئے سخت امتحان سے گذر نا پڑے گا۔
سال2014کے انتخابات سب کاساتھ سب کاوکاس کے نعرے پر لڑے گئے تھے اور اس نعرے کو ہندوستان کے انتہا پسند اور سکیولر پسند سبھی افراد نے پسند کرتے ہوئے بی جے پی کی حمایت کی تھی۔
لیکن 2014سے 2019کی معیادمیں بی جے پی نے وکاس(ترقی) کا کوئی کام ہی نہیں کیابلکہ ان پانچ برسوں میں ہندوستانی معیشت او رتہذیب وتمدن کو ایسے نقصانات پہنچائے جس کا ازالہ ناممکن ہے۔
نریندر مودی نے گذشتہ انتخابات میں سب کا ساتھ سب کا وکاس کا جو نعرہ دیاتھا وہ اکثر ناکام ہوا کیونکہ نوٹ بندی اور ی ایس ٹی سے جہاں ہندوستانی معیشت کو تباہ وبرباد کیاگیاتودوسری جانب ہجومی تشدد اور گاؤ کشی کے نام پر اقلیتوں کو
ظلم وستم کا نشانہ بنایاگیااور اس میں بھی اکثر یت مسلمانوں کی رہی جنھیں موت کے گھاٹ اتاردیاگیا۔جون2016میں پونے کے 24سالہ محسن شیخ کو موت کے گھاٹ اتارنے کا واقعہ
بی جے پی کے اقتدار میں آنے میں کے ایک مہینے کے اندر رونما ہونے والا افسوسناک واقعہ تھا۔
یہ ایک واقعہ نہیں جہاں مسلمانوں پر ظلم کاپہاڑ ٹوٹابلکہ یہ بھی ایک کبھی ختم نہ ہونے والی داستان کا ایک باب رہاکیونکہ اس کے بعد ہندوستان کے ہر کونے میں کسی نہ کسی موضوع پر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایاگیااور کئی نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیاگیا
جس میں سے خاص کر گاؤ کشی کے نام پر مسلمانوں کو ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنا ہندوستان میں ایک روایت بن چکی ہے۔
بی جے پی کے 2014میں برسراقتدار آنے کے درپردہ بھی اسکے اقلیتوں کے خلاف ظلم کی داستانیں موجود ہیں جس میں خاص کر 2002کے گجرات فسادات ہیں کیونکہ یہی وہ فسادات تھے
جس نے مودی کو ہندوؤں کے دلوں پر راج کرنے والے حکمراں کے طور پر پیش کیااو ریہی واقعات تھے جس نے ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت کے لئے راہ ہموار کیا ہے۔
اگر یوں کہاجائے کہ 2002کے گجرات فسادات نہیں ہوتے تو شائد 2019تک بی جے پی اقتدار کی کرسی پر فائز نہیں ہوتی۔ سال2002گجرات فسادات سے لے کر2014میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے تک اس کی ظلم وزیادتی کی ایک طویل داستان ہے
۔ جس کی وجہہ سے ٹائم میگزین نے بھی اپنے حالیہ شمارے میں وزیراعظم نریند ر مودی کو ”ڈیوائڈر انچیف“ کا نام دیاتھا۔ ٹائم میگزین نے نریندر مودی کو یہ خطاب اس لئے بھی دیا ہے کیونکہ دور اقتدار میں اقلیتیں بے یار ومدد گار بن کر رہ گئے ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف ہندوستا ن بھر میں ظلم وزیادتیوں کے طریقہ کار اپنائے گئے جس میں اگر بنگال کا ہی تذکر ہ کریں تو یہاں بی جے پی نے پچاس ہزار سے زائد واٹس ایپ گروپ
بنائے اور ان سوشیل میڈیاگروپس کے ذریعہ بنگلہ دیشی اورروہنگیائی مسلمانوں کو نشانہ بنایاگیا۔ بی جے پی نے ہندوستان میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ بھی کئی ایک واقعات کو
اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے او رمسلمانوں کے خلاف اپنی سازشوں کوعملی جامعہ پہنانے کے لئے بھی استعمال کیاہے
جس میں خاص کرکے اس نے فضائی حملے کو اپنے اصل ہتھیار بناتے وئے کہاکہ دہشت گردی کے حلاف ہم نے پڑوسی ملک کے گھر میں گھس کر مارا ہے۔
پاکستان کے خلاف جوفضائی کاروائی کی گئی تھی اس میں بی جے پی نے اپنی بہادری کے چرچوں کی تشہیرہر گوشے میں ہے کی حالانکہ پڑوسی ملک نے اسے ایک عام نوعیت کی کی کاروائی ہی قراردیاہے۔
اپوزیشن کانگرحس نے جب اس فضائی کاروائی کی حقیقت او راس کے اعداد وشمار کا مطالبہ کیاتو اس پر ملک سے محبت کا سوالیہ نشان لگادیا۔
یہی نہیں بلکہ ہندوستان میں گذشتہ 47برسوں سے معیشت کی تباہی‘ کسانوں کی خودکشی اور بے روزگاری کے مسائل کو بھی پاکستان سے جوڑا گیا‘ کیونکہ پاکستان کے خلاف موقف اختیار کرکے ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی آسانی کے ساتھ نشانہ بنایاجاسکتا ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت سب کو عیاں ہے۔
ہندوستان کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کی آبادی 15فیصد کی ہے جبکہ ہر گذرنے والے وقت کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمتوں میں ان کی نمائندگی مزید گھٹتی جارہی ہے۔
یہی نہیں بلکہ قانون سازاداروں اسملبیوں اورپارلیمنٹ میں بھی ان کی نمائندگی کا گارف مزید نیچے گرتاجارہا ہے۔
سال 2014سے2019کے دور اقتدار میں بی جے پی نے جو بڑے وعدے کیے گئے تھے ان میں وہ انتہائی ناکام رہی جس کے باوجود ہندوستانی عوام نے انہیں پھر ایک مرتبہ حکومت کا موقع دیاہے جس کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے ایک نیا نعرہ دیتے ہوئے سب کا ساتھ سب کا وکاس کے بعد سب کا وشواس بھی کہا ہے
لیکن مسلمانوں کا وشواس یا بھروسہ حاصل کرنا ان کے لئے اتنا آسان نہیں ہوگا۔
ایک جانب وہ اپنے آقاؤں کے خلاف بالکل نہیں جاسکتے کیونکہ ان کے آقاؤں کا بنیادی نظریہ مسلمانوں کے خلاف ہی ہے۔ او رخود وزیراعظم نریندر مودی مسلمانوں کے خلاف اپنے ہندووٹ بینک کو مضبوط کرتے ہوئے اقتدار کی کرسی پر پہنچے ہیں۔
اگروہ مسلمانوں کے ساتھ بھلائی کاکام کرتے ہیں تو کس ھرح وہ اپنے آقاؤں کے ساتھ اپنا تعلق بہتر بناپائیں گے؟
۔یوگی ادتیہ ناتھ‘ سادھو پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور گری راج سنگھ جیسے کئی لیڈروں کو مسلمانوں کے خلاف تیا ر کررکھا گیاہے۔
پرگیہ سنگھ ٹھاکر جو انتخابا ت میں حصہ لینے سے قبل مالیگاؤں دہشت گرد حملے میں ماخود تھیں۔ انہیں نہ صرف پارلیمانی حلقہ بھوپال سے الیکشن لڑایاگیابلکہ وہ یہا ں س کامیاب بھی ہوئی ہیں۔
انتخابات لڑوایاگیا بلکہ وہ یہاں سے کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ انتخابات کے شاندار نتائج کے بعد بی جے پی صدر امیت شاہ کووزیرداخلہ بنایاگیا حالانکہ وہ بھی سہراب الدین شیخ او ران کی اہلیہ کوموت کے گھاٹ اتارانے کے مقدمہ میں مبینہ طور پر ملوث رہے ہیں۔
امیت شاہ کوایک وقت سپریم کورٹ نے گجرات میں داخلے سے بھی روک دیاتھا۔ اقلیتوں او رخاص کر مسلمانوں کے خلاف ظلم وزیادتی او رتشدد کی ایک ناختم ہونے والی داستان موجود ہے او ران کی کاروائیوں کو
انجام دینے والے لیڈروں کو بڑے عہدوں پر فائز کرتے ہوئے پہلے اقلیتوں کے خلاف اپنے منصوبوں کو ظا ہر کردیا گیا ہے۔
ان حالات میں وزیراعظم نریندر مودی کاسب کاساتھ سب کاوکاس اور سب کا وشواس کا جو نعرہ ہے وہ بھی ایک پروپگنڈہ سے بڑھ کر کچھ دیکھائی نہیں دیتاکیونکہ الفاظ ادا کرنا کافی نہیں ہے لیکن ان پر عمل آواری انتہائی مشکل ترین او رسخت امتحان سے گذرنے کے مترادف ہے۔
جو وزیراعظم نریندر مودی کے لئے آسان نہیں ہوگا۔ الغرض یہ تو آنے والے وقت ہی بتائے گا کے وزیراعظم نریندر مودی 2014میں کئے گئے وعدوں کو مکمل نہیں کرپائے وہ کس طرح2019کے وعدوں کوپورا کیا کریں گے؟۔
مضمون نگار اعجاز ذکا رسید کااُردو ترجمہ