موقوفہ قبرستان و عیدگاہ کی اراضی کو کرایہ پر دینا جائز نہیں

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک جامع مسجد کے تحت عیدگاہ و قبرستان اور ایک بیت المال قائم ہیں۔ یہ محلہ ایک سلم علاقہ ہے، جہاں کی اکثریت محنت و مزدوری کرنے والے افراد ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک نامور کمپنی کی جانب سے قبرستان کے گوشہ میں یا عیدگاہ کے کسی جانب، اپنی کمپنی کا ٹاور نصب کرنا چاہتے ہیں، جس کا ماہانہ کرایہ پندرہ ہزار روپئے ادا کریں گے۔ کمیٹی کے احباب نے بھی مناسب سمجھا کہ اس کے ذریعہ بیت المال کو فائدہ ہوجائے۔
ایسی صورت میں مذکورہ کمپنی کیلئے انکا ٹاور نصب کرنے کیلئے عیدگاہ یا قبرستان کی کسی جانب جگہ فراہم کرنا یا اس کے ذریعہ کرایہ وصول کرنا شرعًا درست ہے یا نہیں ؟ بینوا تؤجروا
جواب : بشرطِ صحتِ سوال صورتِ مسئول عنہا میں موقوفہ قبرستان کی اراضی تدفین اموات کیلئے خاص ہوتی ہے اور عیدگاہ کی اراضی، نمازعید کیلئے خاص ہوتی ہے۔ اسکے علاوہ کسی اور غرض کیلئے ان اراضی کا استعمال شرعًا درست نہیں۔ ردالمحتار جلد ۳ کتاب الوقف صفحہ ۴۹۷ میں ہے : و خالف شرط الواقف فھو مخالف النفس … سواء کان نصہ فی الوقف نصا أو ظاہرا اھ وھذا موافق لقول مشایخنا کغیرھم شرط الواقف کنص الشارع فیجب اتباعہ کما صرح بہ فی شرح المجمع للمصنف۔ اسی کتاب کے صفحہ ۴۰۶ میں احکام مسجد کے تحت ہے : ولا تجوز أخذ الأجرۃ منہ ولا ان یجعل شیئًا منہ مستغلا ولا سکنٰی بزازیۃ۔
لہذا موقوفہ قبرستان و عیدگاہ کی اراضی کو کرایہ پر دینا جائز نہیں۔ فقط واﷲ أعلم
مشترکہ جائداد میں ہبہ کا شرعی حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جائداد مشترکہ میں صحتِ ہبہ کیلئے کیا شرط ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : شرعًاصحتِ ھبہ کیلئے ھبہ کرنے والے کا، ھبہ کیجانے والی چیزکا مالک ہونا شرط ہے، نیز جائداد مشترکہ میں بلاتقسیم و تعیین حصص، ھبہ کرنا ناجائز ہے۔ فتاوی عالمگیری جلد ۴ صفحہ ۳۷۴ میں ہے : و أما شرائطھا فأنواع، یرجع بعضھا الی نفس الرکن و بعضھا الی الواھب … وأما ما یرجع الی الواھب فھو أن یکون الواھب من أھل الھبۃ و کونہ من أھلھا أن یکون حرا عاقلا بالغا مالکا للموھوب حتی لو کان عبدا … أو لا یکون مالکا للموھوب لا یصح ھکذا فی النہایۃ ۔ درمختار برحاشیہ رد المحتار جلد ۴ کتاب الھبۃ میں ہے : وشرائط صحتہا فی الواھب : العقل و البلوغ والملک۔ ہدایہ کتاب الھبۃ میں ہے : ولا یجوز الھبۃ فیما یقسم الا محوزۃ مقسومۃ ۔
قرابت میں دوری سے وراثتًا محروم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کا انتقال ہوا، انکی اولاد میں حین حیات فوت شدہ سات لڑکے بکرمرحوم کی اولاد کو مرحوم زید کے متروکہ سے کچھ حصہ ملیگا یا نہیں ؟ بینوا تؤجروا
جواب : بشرطِ صحتِ سوال صورتِ مسئول عنہا میں زیدمرحوم کے ورثاء میں موجود فرزاندان کے مقابل ، موصوف کی حینِ حیات فوت شدہ فرزند (بکر)کی اولاد (پوترے، پوتریاں) قرابت میں دور ہونے کی وجہ محروم ہے۔ انکو وراثتًا کچھ نہیں ملتا۔ شریفیہ شرح سراجیہ باب العصبات میں ہے: (وھم) ای العصبات بانفسھم (اربعۃ اصناف) الاول (جزء المیت) والثانی (اصلہ) والثالث (جزء ابیہ) والرابع (جزء جدہ) فیقدم فی ھذہ الاصناف والمدرجین فیھا (الأقرب فالأقرب) ای (یرجحون بقرب الدرجۃ اعنی بہ اولٰیھم بالمیراث الذی یستحق بہ العصوبۃ (جزء المیت ای البنون ثم بنوھم وان سفلوا)۔ فقط واﷲ أعلم