مولانا فضل الرحمن کو تنہا چھوڑ دیا گیا

   

مسلم لیگ نواز شریف اور پی پی پی کی احتجاج سے دُوری

امتیاز متین

گزشتہ ہفتے بر صغیر پاک و ہند میں دو بڑے اور تاریخ ساز واقعات رونما ہوئے ہیں۔ جس روز بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے کے فیصلے کا اعلان کیا اسی روز پاکستان میں کرتار پور راہداری اور گردوارہ صاحب کا باضابطہ افتتاح کیا گیا۔ ان دونوں واقعات میں فرق یہ تھا کہ ایک فیصلے سے کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی اور دوسرے فیصلے سے دنیا بھر میں بسے والے کروڑوں سکھ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ بابا گرو نانک کی 550 سالگرہ کی تقریبات اور گردوارہ صاحب کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے جہاں بھارت سے واہگہ کے راستے 9 ہزار یاتری آئے تھے وہیں مغربی ممالک سے بھی 8,500 کے قریب زائرین پاکستان پہنچے تھے جبکہ پہلے روز کوریڈور کے راستے سے بہت کم لوگ پاکستان پہنچ پائے تھے۔ گردوارہ صاحب آنے کیلئے ہر سکھ یاتری کو 20 ڈالر فیس ادا کرنی ہوگی۔ اس فیس کے بارے میں یاتریوں کا کہنا ہے کہ یہ بہت معمولی ہے اگر 200 ڈالر بھی طلب کیے جاتے تو ہم ادا کرتے لیکن یہ انتظامات کے لیے مناسب فیس ہے۔ بھارت سے ہونے والے معاہدے کے تحت ہر روز 5,000 یاتری بغیر ویزا کے گردوارہ صاحب کی زیارت کے لیے آ سکیں گے۔ گردوارہ کرتار پور 4 ایکڑ کا تھا جسے توسیع دے کر 42 ایکڑ کر دیا گیا ہے جبکہ گردوارہ کا احاطہ 400 ایکڑ پر محیط ہے جس پر باغات لگائے جائیں گے اورکھیتی باڑی کی جائے گی جس سے ہونے والی پیدوار سے سکھ زائرین کے لیے کھانے کا بندوبست کرنے میں مدد ملے گی۔ باباگرونانک کے 550ویں جنم دن کی نسبت سے یادگاری ٹکٹ اور 550 روپے کا سکہ بھی جاری کیا گیا ہے۔ کرتار پور پہنچنے والے سکھ یاتریوں کے انٹرویوز اور تاثرات کے مختصر ویڈیوز شرکت کر رہے ہیں جس میں ہر شخص یہی بات کرتا نظر آتا ہے کہ ہمیں جو کچھ پاکستان کے بارے میں بتایا گیا تھا وہ بالکل غلط تھا، یہاں بہت پیار ملا۔ لوگ نرم لہجے میں بات کرتے ہیں، ہمارے ساتھ تصویریں بناتے ہیں اور بہت عزت دیتے ہیں۔ بھارتی میڈیا میں کرتارپور راہداری کے حوالے سے جو باتیں ہوتی رہی ہیں اس پر بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم منصوبے کے مخالف اور آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر جنگ کی باتیں کرنے والے سیاسی رہنما سبرامنیم سوامی نے اب گردوارہ کرتارپور صاحب کو بھارت کے قبضے میں لے لینے کا منفرد خیال پیش کر دیا ہے۔ بہرحال بھارت میں جو لوگ کرتارپور کوریڈور کو پاکستان کی سازش کے طور پر دیکھ رہے ہیں تو اس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے کرتارپور راہداری کھول کر بھارت کے 14کروڑ سکھوں کو بھی اپنا دوست اور ہمدرد بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ کرتارپور راہداری منصوبے پر صرف ایک اعتراض یہ اٹھایا گیا ہے کہ اس راستے کو ’’قادیانی‘‘ استعمال کر سکتے ہیں۔ تاہم اس پروجیکٹ کی سیکورٹی کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ یہ ایک یکطرفہ راستہ ہے جو اس راستے سے صبح آئے گا وہ اسی روز اسی راستے سے واپس چلا جائے گا۔ گردوارہ صاحب کی افتتاحی تقریب میں بھارت سے آئے ہوئے مہمانوں نے اپنی تقاریر میں دوسرے تجارتی راستے بھی اسی طرح کھولنے کا مطالبہ کیا ہے کہ کیسا اچھا ہو کہ امرتسر کے تاجر صبح لاہور آئیں اور تجارت کرکے شام میں واپس چلے جائیں۔ کرتارپور راہداری منصوبے کو سی پیک کے حصے کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے جس کے تحت سرحد پار بسنے والے دوسرے مذہب کے لوگوں کو پاکستان میں آمد و رفت کا موقع دیا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے مستقبل میں یہ بھی ممکن ہو جائے۔

گزشتہ مہینے مولانا فضل الرحمن آزادی مارچ لے کرچلے اورمنزلوں پر منزلیں طے کرتے ہوئے تین چار روز میں اسلام آبادپہنچ گئے۔ٹی وی چینلس پر پیش کیے جانے والے تجزیوں اور تبصروں سے لگ رہا تھا کہ وہ اسلام آباد میں کوئی طوفان برپا کر دیں گے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ 15 لاکھ لوگ لے کر اسلام آباد پہنچیں گے لیکن عام خیال ہے کہ مولانا کے دھرنے کے پہلے روز بس پونے 15 لاکھ لوگ کم تھے جسے وہ دھرنے کے آخری روز تک 15 ملین کا دھرنا قرار دیتے رہے تھے ۔مولانا فضل الرحمن میں وزیر اعظم عمران خان کو 2 دن میں مستعفی ہونے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو وہ خود ان کے گھر میں جا کر استعفیٰ لے لیں گے اور حکومت کو قبل از وقت انتخابات کروانے پر مجبور کر دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے فوج کو تنقید کا نشانہ بناکر سیاسی درجہ حرارت بڑھانے کی تو کوشش کی تھی لیکن عوام کی طرف سے حمایت میں ردعمل نہ آنے اور آئی ایس پی آر کی جانب سے نرم لہجے کا سخت جواب ملنے کے بعد مولانا کی تقریریں مدہم پڑ گئی تھیں۔ یہ نظر آنے لگا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) انہیں آگے کرکے پیچھے سے ہٹ گئی ہیں اور شہباز شریف اور بلاول زرداری ایک روز تقریریں کرکے غائب ہو گئے جبکہ محمود خان اچکزئی اور اسفندیار ولی جیسے شکست خوردہ سیاستداں آخر تک اسٹیج پر نظر آتے رہے جن کے سیاسی نظریات مولانا فضل الرحمن کی سیاسی سوچ سے متصادم رہے ہیں۔ آزادی مارچ اور دھرنے کے آغاز میں یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ حکومت بھی اتنی تعداد میں بھی غریب طبقات کے لوگوں کے اسلام آباد میں آکر بیٹھ جانے پریشان ہو گئی ہے کچھ افواہ ساز یہ قیاس آرائیاں کر رہے تھے کہ حکومت کے خلاف اس مہم جوئی کے پیچھے فوج ہے یا اسٹیبلشمنٹ میں دھڑے بندی ہو گئی ہے یا مولانا کو سامنے لا کر کشمیر کے معاملے کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن یہ افواہیں بھی جلد ہی دم توڑ گئیں۔فوجی ترجمان کی جانب سے کہا گیا کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور حکومت کے ساتھ ہے۔ دھرنے کے معاملے میں حکومت کی ترجیح یہی تھی کہ کسی تصادم کے بغیر یہ دھرنا نمٹا دیا جائے۔ جے یو آئی (ف) کے دھرنے میں شریک افراد دور دراز دیہی علاقوں کے مدرسوں کے طلبا ہیں یا ان کے زیر اثر ہیں یا ہو سکتا ہے کہ ان غریب مزدوروں کو دھرنے میں بیٹھنے کی دیہاڑی پر ہی اسلام آباد لایا گیا ہو۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد کے دھرنے میں شریک افراد کی اکثریت کو مولانا کے اصل سیاسی ایجنڈے کا علم نہیں تھا۔ بلکہ وہ وہاں عقیدہ ختم نبوت، ناموس رسالت کے تحفظ اور پاکستان کو یہودیوں کے ایجنڈے سے بچانے آئے تھے۔ دھرنے کے شرکا کو کنٹرول کرنے کے لیے ڈنڈا بردار کارکن موجود ہیں جو اپنے لوگوں کو رپورٹرس سے بات کرنے سے منع کرتے تھے تاکہ وہ اپنے سچے اور معصومانہ جوابات سے مولانا فضل الرحمن کی پریشانیوں میں مزید اضافہ نہ کریں۔ بارش اور سردی بڑھنے کے بعد بہت سے لوگ اپنے گھروں کو واپس جانا شروع ہو گئے تھے اور مظاہرین کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جا رہی تھی تاہم جو غریب مزدور گائوں واپس جانے کے قابل نہیں تھے سڑک پر بیٹھ کر سردی اور بارشوں کا سامنا کر رہے تھے اور موسمی بیماریاں جھیل رہے تھے جبکہ قائدین گرم اور آرام دہ رہائش گاہوں میں قیام پذیر تھے اور دھرنے میں صرف تقریریں کرنے پہچنتے تھے۔ حکومت نے چوہدری برادران کو مولانا سے مذاکرات کے لیے بھیجا تھا جو مولانا فضل الرحمن کو ملک کا واحد اپوزیشن لیڈر قرار دے رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن کے بے ثمر آزادی مارچ اور دھرنے کے آغاز میں ہی یہ اندازہ لگا لیا گیا تھا کہ مولانا نے بڑے بڑے حتمی مطالبے کرکے خود کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے بڑے بڑے دفاعی تجزیہ کار جو اسلام آباد میں کسی بڑے تصادم اور عمران خان کے استعفے کی توقعات کر رہے تھے، انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ پاکستانی سیاست میں صرف بند گلی ہی نہیں ہے بلکہ پتلی گلی بھی ہے جسے سمجھ دار لوگ بروقت پکڑ کر نکل جانا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ مولانا نے دھرنے کے ابتدائی دنوں میں ہی دھرنے کو اگلے مرحلے میں لے جانے کا اعلان کر دیا تھا۔ اب مولانا فضل الرحمن کے پلان بی کے مطابق اسلام آباد کا دھرنا تو پر امن طور پر ختم ہو گیا ہے لیکن اب چاروں صوبوں میں قومی شاہراہوں کو وقتی طور پر بند کرنے اور پر امن دھرنوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
گزشتہ کئی ہفتوں سے یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ مولانا فضل الرحمن کے ’’آزادی مارچ‘‘ اور دھرنے کا مقصد بنیادی طور پر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی رہائی کیلئے دبائو بڑھانے کا ایک حربہ تھا لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے جس طرح ’’آزادی مارچ‘‘ اور دھرنے میں شرکت کرنے سے گریز کیا، اس سے یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ پس پردہ مذاکرات ختم ہوجانے کے خدشے کے پیش نظر ان دونوں جماعتوں نے مولانا کی مہم میں شرکت سے گریز کیا ہے۔ ایک سوچ یہ بھی ہے کہ دونوں جماعتیں مولانا کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرکے پیچھے ہٹ گئی ہیں۔ قیاس کیا جا رہا تھا کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ سے سزا یافتہ میاں نواز شریف کی رہائی طبی بنیادوں پر ممکن بنائی جائے گی۔ پاکستان میں یہ ایک عام سی بات ہے بااثر اور دولت مند قیدی جیل جاتے ہی بیمار پڑ جاتے ہیں جنہیں جلد ہی آرام دہ وی آئی پی کمروں میں منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں ان کی معمول کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ جب میاں نواز شریف کے بیمار ہونے کی خبریں آئیں تو یہ سمجھ لیا گیاتھا کہ رہائی کیلئے کوئی ڈیل ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما تو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کو جیسے سیاسی طور پر قید رکھا ہوا ہے حالانکہ انہیں سپریم کورٹ نے سنگین بدعنوانیوں کے کیس میں سزا سنائی تھی اور اپنے فیصلے میں انہیں سسلی مافیا قرار دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کا بھی یہی مسئلہ ہے کہ آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور سنگین بدعنوانیوں اور منی لانڈرنگ کے مقدمات میں زیر حراست ہیں۔ میڈیا پر بھی میاں نواز شریف کی خبریں اس طرح پیش کی جا رہی ہیں جیسے اگر وہ آج لندن نہ گئے توشاید وہ کل کا سورج نہ دیکھ پائیں گے لیکن اس بحث میں دو ہفتے گزر چکے ہیں اور اب ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کا معاملہ ہائیکورٹ میں پہنچ چکا ہے۔مسلم لیگی رہنما یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر میاں نواز شریف کی زندگی کو کچھ ہو گیا تو وزیر اعظم عمران خان ذمہ دار ہوں گے ورنہ وہ نواز شریف کی زندگی کی ضمانت دیں ۔جس کے جواب میں وزیراعظم نے کہا : ’’میں اپنی زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتا تو کسی اور کی زندگی کی کیا ضمانت دے سکتا ہوں‘‘۔ مسلم لیگ (ن) کا مطالبہ ہے کہ نواز شریف کیساتھ ان بھائی شہباز شریف بھی لندن جائیں گے ،جبکہ مریم نوازکو بھی ضمانت پر رہا کرکے اپنے والد کی تیمارداری کیلئے لندن جانے دیاجائے ۔گزشتہ ہفتے تک یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ بیمار میاں نواز شریف جن کی قید کی سزا عدالت کے حکم پر 8 ہفتے کیلئے معطل کی گئی ہے وہ اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کیساتھ کسی بھی وقت لندن روانہ ہو جائیں گے۔ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کا شروع ہی سے یہ موقف رہا ہے کہ میں قوم کا پیسہ لوٹنے والے ڈاکوئوں کو کوئی این آر او نہیں دوں گا۔ نہ کوئی ڈیل ہوگی اور نہ ڈھیل دی جائے گی۔ لہٰذاحکومت نے عدالت کے حکم پر نواز شریف کو انسانی بنیادوں پر جیل سے رہاکرکے سرکاری دواخانہ منتقل تو کر دیاتھا لیکن پھر انہیں شریف میڈیکل سٹی ہاسپٹل اور وہاں سے ان کے گھر واقع جاتی امرا لے گئے اور کہا گیا کہ آئی سی یو گھر پر ہی بنا دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جعلی قسم کے آئی سی یو کی تصویر جاری کی گئی تھی جس کے پرانے بیڈ کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ میاں نواز شریف کبھی بھی اس بستر پر لیٹنا پسند نہیں کریں گے۔ بیماری اور عارضی رہائی کے بعد جب بیرون ملک روانگی کا مسئلہ آیا تو احتساب بیورو اور وزارت داخلہ کے بیورو کریٹس نے میاں نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے سے انکار کرتے ہوئے فیصلے کا اختیار حکومت کی طرف منتقل کر دیا۔ وزیر اعظم نے کابینہ کے اجلاس میں اس معاملے پر غور کیا گیا جس کے بعد کہا گیا کہ نواز شریف 7 ارب روپے کا استثنیٰ کا بانڈ دینے کے بعد 4 ہفتے کیلئے ملک سے باہر جا سکتے ہیںاور مقررہ وقت میں واپس نہ آنے کی صورت میں یہ بانڈ قابل عمل ہوگا۔ حکومت کا موقف ہے کہ عدالت نے ان کی قید کی سزا 8 ہفتے کے لیے معطل کی ہے لیکن جرمانہ معطل نہیں کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے حکومت کے سیکورٹی بانڈ کے مطالبے کو ناجائز قرار دیتے ہوئے نواز شریف کو غیر مشروط طور پر ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا اور یہ معاملہ لاہور ہائیکورٹ میں لے کر گئے ۔ دریں اثنا سینیٹ کے چیرمین نے بھی رولنگ دی ہے کہ نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ نواز شریف کے لیے 7 ارب روپے دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن بانڈ بھرنے کی صورت میں وہ کسی دوسرے ملک میں سیاسی پناہ کی درخواست نہیں دے سکیں گے، جس کی وجہ سے مسلم لیگی یہ معاملہ عدالت میں لے گئے ہیں۔ نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنے کے معاملے پر حکومت میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے ، پرانے سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کوفوراً بیرون ملک جانے دیں، شاید انہیں خدشہ ہے کہ اگر طبیعت زیادہ بگڑ گئی یا وہ بیرون ملک علاج کے بغیر گزر گئے توحکومت کو پریشانی ہوگی جبکہ وزرا ء کے ایک حلقے کا کہنا ہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار بھی لندن علاج کرانے گیا تھا وہ آج تک صحت مند نہیں ہوا ہے جبکہ حسن اور حسین نواز بھی لندن میںبیٹھے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین اعصاب کی لڑائی سخت ہورہی ہے اور حکومت بہت آرام سے اس معاملے کو عدالت میں لے گئی ہے تاکہ اگلا قدم عدالتی فیصلے کی روشنی میں اُٹھایا جائے، تاہم اس ساری لڑائی سے یہ تاثر اُبھر رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا انحصار اس بات پر ہے کہ گھریلو آئی سی یو میں زیر علاج نواز شریف کو اگر غیرمشروط طور پر لندن نہ بھیجا گیا تو ان کی طبیعت مزید خراب ہوجائے گی جبکہ حکومت کہہ رہی ہے کہ سیکورٹی بانڈ پر دستخط کرو اور لندن جاؤ۔٭