تیری ہمدردی سلامت دل کی بے تابی بخیر
موج غم کو بڑھ کے سیل بیکراں ہونا ہی تھا
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت بھی اب مسلمانوں کو رجھانے کی کوششیں شروع کرچکے ہیں۔ ہندوستان میں سنگھ ہی وہ تنظیم ہے جس کے کارکنوں نے اب تک ملک بھر میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ان کے خلاف زہر افشانی کی ہے ۔ دیگر ابنائے وطن کے ذہنوں کو پراگندہ کیا ہے ۔ مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کیا گیا ہے ۔ ان کے خلاف سماج میں نفرتوں کو فروغ دیا گیا ہے ۔ مسلمانوں کو ملک دشمن قرار دینے کی حتی المقدور کوشش کی گئی ہے ۔ سنگھ سے وابستہ تنظیمیں ہی مسلمانوں کی آبادی پر سوال کرتی ہیں۔ انہیں حق رائے دہی سے محروم کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ گئو دہشت گردوں کی جانب سے مسلمانوں کو قتل کیا جا تا ہے ۔ مسلمان کو قتل کرنے والوں کو تہنیت پیش کی جاتی ہے ۔ انہیں عہدے دئے جاتے ہیں۔ صرف ایک مخصوص نظریہ اور سوچ و فکر کو ہر شعبہ حیات میں مسلط کرنے کی تمام گوشوں سے کوششیں ہوتی ہیں ۔ تاہم اب سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کو مسلمانوں سے ہمدردی ہونے لگی ہے ۔ یہ اظہار ہمدردی بھی آر ایس ایس کی تنظیم مسلم راشٹریہ منچ کی تقریب میں کی گئی ہے ۔ مسلم راشٹریہ منچ وہ تنظیم ہے جس کے سربراہ کا نام حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد میں ہوئے بم دھماکوں کے کیس میں سامنے آیا تھا ۔ موہن بھاگوت کا کہنا تھا کہ ہندو ۔ مسلم اتحاد کا لفظ ہی غلط ہے کیونکہ تمام ہندوستانیوں کا ڈی این اے ایک ہی ہے ۔ عبادت کرنے کے مختلف طریقے کے بنیاد پر کسی سے امتیاز نہیں برتا جاسکتا۔ موہن بھاگوت نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان ہندوستان میں نہ رہیں وہ ہندو نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گائے ایک مقدس جانور ضرور ہے لیکن جو لوگ لنچنگ کر رہے ہیں وہ در اصل ہندوتوا کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ سنگھ کے سربراہ نے مسلمانوں کو تاکید کی کہ وہ خوف کے عالم میں نہ رہیں ۔ آر ایس ایس سربراہ کی یہ تقریر در اصل اترپردیش اور ملک کی دیگر چار ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش کے سواء کچھ نہیںہے ۔ ایسی ہی تقاریر کی امید اب وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی کی جاسکتی ہے ۔ وہ بھی میٹھی میٹھی باتیں کرسکتے ہیں۔
انتخابات کے دوران مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور اپنا امیج بہتر بنانے کیلئے ایسی تقاریر اور بھی ہوسکتی ہیں۔ تاہم جو تجربات ہندوستانی مسلمانوں کو گذشتہ سال سال میں ہوئے ہیں ان کا کوئی مداوا اب تک نہیں کیا گیا ۔ خود وزیر اعظم نے بھی ماضی میں لنچنگ کرنے والوں کے خلاف شدید ریمارکس کئے تھے لیکن یہ صرف دکھاوا تھا کیونکہ مودی حکومت کے ایک وزیر نے لنچنگ کرنے والوں کو تہنیت پیش کی تھی ۔ ان کی گلپوشی کی گئی تھی ۔ انہیں بعد میں عہدے دئے گئے ۔ انہیں ایک دلیر اور بہادر شخص کے طور پر پیش کیا گیا ۔ ایسا کرنے والے وزیروں کے خلاف مودی حکومت نے کچھ نہیں کیا ۔ سنگھ پریوار کے بھی کئی گوشوں کی جانب سے اور سنگھ سے وابستہ کئی تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف بے شمار سازشیں رچی جا رہی ہیں۔ گئو دہشت گردوں نے لنچنگ کو ایک فیشن میں بدل دیا ہے ۔ ملک کی بے شمار ریاستوں میں ایسے واقعات پیش آئے ہیں۔ لنچنگ میں صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ دلت برادری کے نوجوانوں کو بھی موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا ۔ موہن بھاگوت نے ایک ریمارک کرتے ہوئے دونوں طبقات کو گمراہ کرنے اور بیوقوف بنانے کی کوشش کی ہے ۔ دادری میں محمد اخلاق سے لے کر الور میں پہلو خان تک اور جھارکھنڈ سے بہار تک ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں بے گناہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور ایسا کرنے والے قاتلوں کے خلاف ان ریاستوں کی پولیس نے قانونی اعتبار سے مضبوط مقدمات تک درج نہیں کئے ۔
اس بات کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ جو تنظیمیں سنگھ سے وابستہ ہیں وہ آر ایس ایس سربراہ کے اس بیان کو قبول کریں گی ۔ یہ تنظیمیں اپنی سرگرمیوںکو جاری رکھی ہوئی ہیں اور انہیں مسلسل فنڈنگ بھی مل رہی ہے ۔ اترپردیش میں جو تاثر عام ہوا ہے وہ یہی ہے کہ چیف منسٹر آدتیہ ناتھ کی حکومت کے خلاف عوام میں ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ مسلمان خاص طور پر اترپردیش میں بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ سنگھ سربراہ ایسی بیان بازیوں سے مسلمانوں کا اعتماد حاصل نہیں کرسکتے ۔ مسلم راشٹریہ منچ کے ان کے کرایہ کے کارندے ہوں یا کوئی اور وہ مسلمانوں میں کوئی وزن نہیں رکھتے اور ایسی کوششیں بے سود ہی ثابت ہونگی ۔
