ڈاکٹر حسن الدین صدیقی
ایمان بالقین کے ساتھ قرآنِ حکیم مکافاتِ عمل پر بھی دلیل ہے ۔ نزولِ قرآن کی مقصدیت ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو خوش خبریاں سنانا اور بدکاروں اور گمراہوں کو سخت سزاء سے ہوشیار کردینا ہے : قَيِّمًا لِّيُنْذِرَ بَاْسًا شَدِيْدًا مِّنْ لَّـدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّـذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصَّالِحَاتِ اَنَّ لَـهُـمْ اَجْرًا حَسَنًا o (الکھف ۱۸ ، آیت ۲ ) یہی نہیں بلکہ پیغمبروں کو بھیجے جانے کا مقصد بھی صرف یہی ہے کہ وہ بشارت دیں اور ڈرائیں ۔ ملاحظہ ہو احکامِ الٰہی : وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّا مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ ۖ o ( الانعام ۶ ، آیت ۴۸) ’’اور وہ آپؐ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا عذاب واقعی سچ ہے ؟ ، آپؐ فرمادیجئے کہ ہاں ! قسم ہے میرے رب کی وہ واقعی سچ ہے اور تم کسی طرح اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے ‘‘ ۔ ( یونس ۱۰ ، آیت ۵۳) یاد رکھیں کہ خالق مطلق ارحم الراحمین بھی ہے اور واحد القہار بھی اور روزِ جزاء کا مالک بھی ۔ وہ ہر عمل پر باخبر ہے ( التغابن ۶۴، آیت ۸) اور اُسی کے حکم سے اعمال لکھائے جاتے ہیں ( الجاثیہ ۴۵، آیت ۲۹) جو حساب کتاب کے دن اُنھیں دکھلادیئے جائیں گے ‘‘۔ ( الزلزال ۹۹، آیت ۶ ) فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْـرًا يَّرَه o وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَه o ’’اور جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اِسے دیکھ لے گا ‘‘۔ ( الزلزال ۹۹، آیت ۷ ، ۸ ) اور اسی کے مطابق وہ سزا و جزاء کا مستحق ہوگا۔ نیکوکار بلند و بالا جنتوں میں آسایش پذیر ہوں گے اور بدکار دوزخ کی بھڑکائی ہوئی آگ میں جس کا ایندھن وہ خود ہوں گے ، تپاں و غلطاں ہوں گے ( الغاشیہ ۸۸، آیت ۱۰، التکویر ۸۱، آیت ۱۲، التحریم ۶۶ آیت ۶ ، الرحمن ۵۵، آیت ۴۴)
از مکافات عمل غافل مشو
گندم از گندم بروید جو ز جو