مہاراشٹرا بحران : مرکزی بی جے پی اقتدار کا غلط استعمال

   

راجیو دھون

بھارتیہ جنتا پارٹی ترقی کے حق میں ڈٹ جانے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن اس کی متواتر کارکردگی کا ریکارڈ حکمرانی کے دستوری اصولوں کو بڑھاوا دینے کے بجائے ان کا تباہ کرنا ہے جو ہولناکی کا احساس دلاتا ہے۔ وہ برائیوں کو فراموش کریں جو دیگر سیاسی پارٹیوں نے ماضی میں کئے ہیں۔ 2014ء جو ’نیو انڈیا‘ کی شروعات کا نقیب ہونا تھا، تب سے بی جے پی نے اروناچل پردیش اور اترکھنڈ کے ساتھ ساتھ کرناٹک اور جموں و کشمیر کی حکومتوں کو برخاست کرتے ہوئے صدر راج لاگو کیا ہے۔ اترکھنڈ میں صدر راج کو ہائی کورٹ نے کالعدم کیا تھا۔ جموں و کشمیر کے معاملے میں ریاست کو تقسیم کرکے مواصلاتی طور پر مفلوج کردیا گیا جس کے زائد از 100 دن ہوچکے ہیں۔ گوا اور میگھالیہ میں اپنے گورنروں کو بروئے کار لاتے ہوئے بی جے پی نے حکومتوں کی تشکیل کیلئے ’سب سے بڑی کے اصول‘ کی خلاف ورزی کی، اور پڈوچیری میں اس کی لیفٹننٹ گورنر ان کے اختیارات کو محدود رکھنے سے متعلق ہائی کورٹ کے فیصلے کی تعمیل سے انکار کرتی ہیں۔ اس نے حکومت دہلی کو مفلوج کرنے کی کوششیں کیں یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے مداخلت کی۔ کسی پچھتاوے کے بغیر بی جے پی سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیش کو بحران میں ڈالا اور اس کی کارروائیوں پر مکمل کنٹرول رکھتی ہے۔ اس نے جہدکاروں کو جیل میں ڈالا اور انسانی حقوق اور دستور کے دفاع میں آگے آنے والے میڈیا اور دیگر عناصر کو ہراساں کیا۔ اس کے دستے لنچنگ اور تشدد کے متعدد واقعات کیلئے ذمے دار ہیں۔ پیسہ اور طاقت کو استعمال کرنے اس کی حکمت عملی کافی معروف ہے۔ یہ بھی عیاں ہے کہ وہ عدالتی تقررات پر بھی اثرانداز ہوئی۔ اب، مہاراشٹرا میں تعطل نے بی جے پی کو ایک اور موقع دیا کہ اصولوں کی دھجیاں اڑائی جائیں۔
مہاراشٹرا حکمت عملی
سب سے پہلے مہاراشٹرا میں مابعد چناؤ حقائق پر نظر ڈالتے ہیں۔ حالیہ اسمبلی الیکشن میں جیتی گئی نشستیں یوں ہیں: بی جے پی 105، شیوسینا 56، کانگریس 44، این سی پی 54 اور دیگر 25۔ ’دیگر‘ میں سی پی آئی (ایم) اور ایم این ایس کے ایک، ایک، ایس پی اور اے آئی ایم آئی ایم کے دو، دو، پرکاش امبیڈکر کی وی بی اے کے تین اور 13 آزاد ہیں۔ 7,42,134 نوٹا (مندرجہ بالا میں سے کوئی نہیں) ووٹ ڈالے گئے، جو کئی نشستوں میں فرق پیدا کرسکتے تھے۔ بی جے پی۔ شیوسینا نے نشستوں کی تقسیم کے ساتھ انتخابات مل کر لڑے، اور سینا نے ایک غیررسمی معاملت کا حوالہ دیتے ہوئے نہ صرف وزارتی نشستوں اور کامیابی کے دیگر فوائد بلکہ حکومت کی پانچ سالہ میعاد کے پہلے نصف کیلئے چیف منسٹر شپ کیلئے بھی اپنی دعوے داری پیش کردی۔ اس معاملے میں بی جے پی تردید کرتی رہی، جو موجب بنی کہ شیوسینا نے اپنے اتحادی پارٹنر پر دروغ گوئی کا الزام عائد کیا۔ اترپردیش میں چیف منسٹرس کو باری باری تبدیل کرنے کی چال کو آزمانے کے بعد بی جے پی کو اس معاملے میں تلخ تجربہ ہوا ہے۔
این ڈی اے میں بی جے پی اتحادیں بناتی ہے، لیکن اپنی اثرانداز رہنے کی حکمت عملی کو برقرار رکھتی ہے جو حلیف کو بغاوت پر بھی مجبور کرسکتی ہے۔ مہاراشٹرا میں اس کی سات مرحلہ کی حکمت عملی ہے:
٭ پہلا، سینا اور تمام این ڈی اے پارٹنرس کو تمام تر طاقتور بی جے پی اور اس کے پریوار کے اطراف چمٹے رہنے کیلئے دھمکانا اور آخرکار مستقبل میں ان کو اپنی صف میں واپس لینا۔
٭ دوسرا، اپنے گندی چالوں کے شعبہ کو استعمال کرتے ہوئے سینا میں پھوٹ کی کوشش کی جائے اور آزاد لیجسلیٹرز کی حمایت بھی حاصل کرلی جائے تاکہ کوئی بھی متبادل حکومت کا کام کاج مفلوج ہوجائے اور وہ اپنی چالیں بہ آسانی چل سکے۔
٭ تیسرا، سینا اور کانگریس کو خود اس کے پیدا شدہ بحران کی وجہ سے تازہ انتخابات کیلئے مورد الزام ٹہرانا۔
٭ چوتھا، جیسے ہی وقت مناسب لگے، صدر راج کی چابک ماری جائے۔
٭ پانچواں، بی جے پی مقررہ گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کے ذریعے ان کے اختیارات کا بیجا استعمال کیا جائے۔
٭ چھٹا، اپنی بات منوانے اور عوام میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے پیسہ اور طاقت کا استعمال کیا جائے۔
٭ ساتواں ، ودربھ اور دیگر خطوں کے بعض علاقوں میں این سی پی اور کانگریس نے اچھی انتخابی طاقت کامظاہرہ کیا ہے، یہ دیکھتے ہوئے بی جے پی اس گڑھ کو کمزور کرنا چاہے گی نیز سینا کے مضبوط علاقوں کو بھی تاکہ ایسا تاثر پیش کیا جائے کہ انھوں نے اپنے رائے دہندوں سے نظریاتی طور پر اور سیاسی دشمنوں کے ساتھ اشتراک کرتے ہوئے بھی دغابازی کی ہے۔

اعتماد کا ووٹ
اس سارے معاملے میں ’مضحکہ خیز عنصر‘ یہ ضرورت ہے کہ اقلیتی مخلوط خود ’اعتماد‘ کا ووٹ پیش کرے اور اپنی اکثریت کو ثابت کرے ۔ اعتماد کا ووٹ (بالمقابل تحریک عدم اعتماد جو اپوزیشن پیش کرتی ہے) عجیب، معذور ہندوستانی رواج ہے جو مہاراشٹرا 2019ء میں مابعد چناؤ بحران میں نمایاں ہورہی ہے۔ مہاراشٹرا بحران اور بے شک کرناٹک بحران ایسی مثالیں ہیں جہاں عجیب و غریب دستوری فیصلے ہوئے ہیں۔ ’اعتماد کا ووٹ ‘ نام کا غلط استعمال ہے۔ اعداد و شمار کے اعتبار سے 1952-2003ء سے 101 تحریکات اعتماد پیش کی جاچکیں، 99 پر مباحث ہوئے، 9 تحریکات اعتماد حکومت کے خلاف گئے، آٹھ چیف منسٹرس اعتماد کھونے کے ڈر سے مستعفی ہوگئے اور 80 تحریکات اعتماد کامیاب رہیں۔ یہ اعداد و شمار حقیقی صورتحال کو واضح نہیں کرتے ہیں۔ ہر معاملے میں جب کبھی اعتماد (بلاشبہ ، عدم اعتماد) کی تحریک پیش کی جاتی ہے، خبیث ڈرامہ کھیلا جاتا ہے۔ رقم ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتی ہے، حکومتی منصبوں کی پیشکش کی جاتی ہے، لیجسلیٹرز کو فائیو اسٹار ہوٹلوں تک محدود کردیا جاتا ہے، کالے دھن کا خوب استعمال ہوتا ہے اور جان کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔
تحریک عدم اعتماد
میں پہلے ہی وضاحت کرچکا ہوں کہ تحریک اعتماد کیلئے اُتھل پتھل درکار ہے۔ لیکن یہ اصول کا معاملہ بھی ہے کہ اس طرح کی تحریکات کو ختم کردینا چاہئے۔ تحریک اعتماد کی ضرورت کا مطلب ہے کہ اقلیتی حکومت کی حلف برداری نہیں ہوسکتی، کیونکہ تحریک اعتماد کا اثر یہ رہے گا کہ جب تک وہ کوئی نہ کوئی پینترے کے ذریعے اپنی بقاء کا انتظام نہ کرلے، وہ ضرور گرجائے گی۔اگر اپوزیشن تحریک عدم اعتماد پیش کرے تو اسے حکومت کو گرانے کی ذمہ داری لینا پڑے گا، اور پھر ایک بار مساوی طور پر نامناسب پینتروں کے ذریعے اپنے حق میں اکثریت جٹانا ہوگا۔
طے شدہ میعاد کے مقننہ جات
مخلوط کی صورتوں کا بار بار سامنا دیکھتے ہوئے برطانیہ نے 2011ء میں پانچ سال کی طے شدہ پارلیمانی میعادیں مقرر کردیئے۔ عدم اعتماد کی تحریکات کے ذریعے محض برسراقتدار حکومت کو نہیں بلکہ مخصوص وزیراعظم کو نشانہ بنانا چاہئے۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں خودبخود جنرل الیکشن کی راہ ہموار نہیں ہوگی اور متبادل حکومتیں تشکیل دینے کا امکان برقرار رہے گا۔ تحلیل اسی وقت ہوگی جب ایوان زیریں کے دو تہائی ارکان اس کے حق میں ووٹ دیں۔ ہمیں سنجیدگی سے اس حل کا جائزہ لینا چاہئے۔میرا یہ بھی ماننا ہے کہ لیجسلیٹرز کو اُس پلیٹ فارم کے تئیں وفادار رہنا چاہئے جس پر وہ منتخب ہوئے ہوں۔ ایک سادہ سی گنجائش شامل کرتے ہوئے انحراف کو بے اثر بنانا چاہئے اور کوئی بھی انحراف کے نتیجے میں چھ سال کیلئے نااہلیت کا اطلاق ہو۔ اور جب کوئی لیجسلیٹر مستعفی ہوجائے، اسے مقننہ کی بقیہ مدت کیلئے کوئی بھی ضمنی چناؤ میں مسابقت کی اجازت نہیں دینا چاہئے۔اگرچہ سپریم کورٹ نے ماضی میں تحریکات اعتماد کا حکم دیا ہے، لیکن یہاں اصل نکتہ کافی کشادہ ہے کیونکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس نے واقعی کبھی ان پر غور نہیں کیا ہے۔ لہٰذا، گورنر مہاراشٹرا کسی حقدار اقلیتی حکومت کو حلف دلاسکتے ہیں لیکن اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے پر اُن کا اصرار غلط ہوگا۔٭