مہاراشٹرا میں اُدھو ٹھاکرے سے دوبارہ اتحاد کیلئے بی جے پی کی کوشش

   

سواتی چترویدی
مہاراشٹرا میں ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کافی سیاسی تبدیلیاں رونما ہوں، اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ بی جے پی ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا سے اتحاد کرلے۔ اس سلسلے میں زعفرانی پارٹی کے قائدین متحرک ہوچکے ہیں کیونکہ انہیں اچھی طرح اندازہ ہوگیا ہے کہ نہ صرف ممبئی کے بلدی انتخابات بلکہ اسمبلی انتخابات کے ساتھ ساتھ 2024ء کے عام انتخابات ، اس مرہٹی ریاست میں اس کی حالت خراب کرسکتے ہیں۔ بی جے پی کو اب اس بات کا اندازہ ہونے لگا ہے کہ اس نے شنڈے گروپ سے اتحاد کرکے حکومت تو بنالی ہے لیکن عوام اس اتحادی حکومت سے خوش نہیں ہیں۔ میں اس بارے میں آپ کو یوں ہی نہیں بتارہی ہوں بلکہ دونوں پارٹیوں (شیوسینا اور بی جے پی) کے قائدین سے میں نے بات کی ہے اور ان ہی ذرائع سے انکشاف ہوا کہ بی جے پی قیادت کسی نہ کسی طرح اپنی سابقہ اتحادی جماعت کو منانے کی کوشش کررہی ہے۔ وہ یہ بھی جانتی ہے کہ چیف منسٹر ایکناتھ شنڈے ان کیلئے مددگار ثابت نہیں ہوسکتے۔ موجودہ حالات میں اگر گورنر مہاراشٹرا بی ایس کوشیاری استعفے دیتے ہیں تو اس سے بی جے پی اور شیوسینا قریب آسکتی ہیں اور دونوں جماعتوں کے قریب آنے کا یہ ایک بہانہ بھی ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی شیوسینا (ادھو ٹھاکرے) سے لے کر خود ایکناتھ شنڈے کے خیمہ میں گورنر کے مخالف مرہٹہ موقف و بیانات سے برہمی پائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ایکناتھ شنڈے نے گزشتہ سال جون میں ادھو ٹھاکرے کے خلاف بغاوت کی تھی جس کے نتیجہ میں شیوسینا پھوٹ کا شکار ہوگئی۔ اس پھوٹ کے باعث ہی بی جے پی نے ایکناتھ شنڈے کی قیادت میں علیحدہ شدہ شیوسینا کے ساتھ مل کر حکومت بنائی لیکن دیویندر فڈنویس کو عہدہ چیف منسٹری حاصل نہ ہوسکا۔ اس عہدہ پر بی جے پی نے ایکناتھ شنڈے کو فائز کیا حالانکہ 2014ء تا 2019ء ریاست مہاراشٹرا میں دیویندر فڈنویس بی جے پی کے باس کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ بعد میں بھی بی جے پی نے دیویندر فڈنویس کو چیف منسٹر بنانے کی جان توڑ کوشش کی لیکن شیوسینا، کانگریس اور این سی پی اتحاد نے ایسا ہونے نہیں دیا۔ اب بی جے پی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پارٹی قیادت 2024ء کے عام انتخابات سے قبل دیویندر فڈنویس کو عہدہ چیف منسٹری پر دوبارہ فائز کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کو یہ بھی احساس ہوگیا ہے کہ شیوسینک شنڈے کو کسی بھی طرح قبول نہیں کرپا رہے ہیں جبکہ ادھو ٹھاکرے کو ہی جو بال ٹھاکرے کے بیٹے ہیں، شیوسینا اور بال ٹھاکرے کا حقیقی وارث قرار دے رہے ہیں۔ اب جبکہ عام انتخابات کیلئے مشکل سے 400 دن باقی ہیں، ایکناتھ شنڈے کی شیوسینا اور بی جے پی کے درمیان اتحاد کمزور ہوتا جارہا ہے، اُدھر وزیراعظم نریندر مودی مسلسل تیسری میعاد کیلئے عہدۂ وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہونے کی کوشش کررہے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ مہاراشٹرا کی 48 پارلیمانی نشستیں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کے حق میں آئیں۔ وہ ان نشستوں کے معاملے میں کوئی جوکھم لینا نہیں چاہتے ہیں۔ (ویسے بھی بہار بی جے پی کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے)۔ ذرائع نے مجھے بتایا کہ بی جے پی نے شیوسینا سے اتحاد کیلئے ایک ایسے ارب پتی صنعت کار کی خدمات حاصل کی ہیں، جسے دونوں جماعتوں کا اعتماد حاصل ہے۔ اب ایک بااثر بی جے پی قائد بات چیت کا اسٹیج تیار کرنے کیلئے اقدامات کرنے والا ہے اور اس بات کی امید کی جارہی ہیں کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان بات چیت کامیاب ہوگی۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ ادھو ٹھاکرے میں اس تعلق سے بہت زیادہ جوش و خروش نہیں پایا جاتا کیونکہ بی جے پی نے جس طرح ان کی پارٹی کو مٹانے کی کوشش میں اقتدار سے محروم کیا، وہ تلخ تجربات وہ فراموش نہیں کرپائے۔ انہیں اندازہ ہے کہ بی جے پی نے صرف شیوسینا میں پھوٹ ڈالی بلکہ ان کی مہاراشٹرا وکاس اگھاڑی حکومت کو بھی زوال سے دوچار کروایا۔ ایک بات ضرور ہے کہ ان تمام سیاست دانوں سیاسی جماعتوں کی حقیقی آزمائش ملک کا معاشی دارالحکومت سمجھے جانے والے ممبئی کے بلدی انتخابات میں ہوگی۔ ان انتخابات کی تواریخ کا اعلان کیا جانا باقی ہے لیکن ٹھاکرے بڑی ہشیاری سے ایک سیاسی چال چلتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ان کی پارٹی دلت لیڈر پرکاش امبیڈکر کی پارٹی سے اتحاد کرے گی۔ انہوں نے اس اتحاد کو تحفظ جمہوریت کیلئے بھیم شکتی اور شیوشکتی کا قریب آنا قرار دیا ہے۔ ادھو ٹھاکرے کی دیگر دو اتحادی جماعتیں نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) اور کانگریس، پرکاش امبیڈکر کی پارٹی کے ساتھ اچھا خاصا ووٹ شیئر رکھتی ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں ادھو ٹھاکرے کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ کانگریس اور این سی پی نے پرکاش امبیڈکر کی پارٹی سے شیوسینا کے یاتحاد پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا۔ اس بارے میں شرد پوار اچھی طرح واقف تھے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ پرکاش امبیڈکر کی پارٹی کو شیوسینا کے کوٹہ سے ٹکٹ دیئے جائیں گے۔ کانگریس اور این سی پی کو کوئی خلل نہیں ہوگا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مرکزی بی جے پی اور ریاستی بی جے پی کئی ایک مقاصد کے تحت کام کررہی ہے۔ دوسری طرف دیویندر فڈنویس جنہیں زبردستی ڈپٹی چیف منسٹر بنایا گیا، عہدہ چیف منسٹری پر فائز ہونے بے چین ہیں۔ وہ ڈپٹی چیف منسٹر بننے کے باوجود اس عہدہ سے مطمئن نہیں، اس لئے کہ انہوں نے ہمیشہ چیف منسٹر کے عہدہ پر فائم ہونے کی کوشش کی اور مہاراشٹرا میں بی جے پی کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا، اس لئے بی جے پی کے ریاستی قائدین چاہتے ہیں کہ ایکناتھ شنڈے کی زیرقیادت شیوسینا بی جے پی میں ضم ہوجاتے جس کے ساتھ ہی بی جے پی ریاستی حکومت میں اپنا زیادہ حصہ حاصل کرسکتی ہے، چاہے وہ عہدۂ چیف منسٹری کا معاملہ ہو یا پھر ریاستی کابینہ میں نمائندگی کا معاملہ تمام میں بی جے پی کو فوقیت حاصل ہوگی۔ ایک اور بات یہ ہے کہ ادھو ٹھاکرے دیویندر فڈنویس کو پسند نہیں کرتے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایکناتھ شنڈے کو نظرانداز کرتے ہوئے فڈنویس یکطرفہ فیصلے کررہے ہیں۔ چاہے وہ پولیس کمشنروں کے تقررات ہوں یا قدیم پینشن اسکیم سے متعلق اقدامات فڈنویس، ایکناتھ شنڈے کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ ایکناتھ شنڈے اسی لئے بھی پریشان ہیں کہ ریاست مہاراشٹرا کو حاصل ہونے والے کئی ارب ڈالرس مالیتی پراجیکٹس بشمول فاکسکان ۔ ویدانتا معاملت گجرات کے حق میں چلے گئے اور یہ سب کچھ انتخابات سے قبل ہوا ہے۔ س سے ایکناتھ شنڈے کا قد، ادھو ٹھاکرے کے سامنے مزید چھوٹا ہوگیا ہے۔ ’’ٹھاکرے کی وراثت‘‘ اور ’’مراٹھی مانوس‘‘ جیسے نعروں کے سامنے شنڈے کا ٹھہرنا مشکل ہے۔ کئی ارب ڈالرس مالیتی پراجیکٹس کا گجرات کو حاصل ہونا مہاراشٹرا میں بی جے پی کیلئے خطرناک ثابت ہونے والا ہے۔ دوسری طرف شنڈے کو اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ ان کی شیوسینا کے ارکان دیویندر فڈنویس سے رابطہ میں ہیں۔ حال ہی میں کئے گئے ووٹر سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرناٹک اور مہاراشٹرا میں اپوزیشن، بی جے پی سے بہتر مظاہرہ کرسکتی ہے اور بی جے پی کی کامیابی کو روک سکتی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ بی جے پی مجبوراً ادھو ٹھاکرے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہی ہے۔