مہاراشٹر میں اقتدار کی چھینہ جھپٹی

   

… غضنفر علی خان …
ویسے تو سیاسی پارٹیوں میں کبھی مستقل رشتہ نہیں ہوتا کیونکہ تمام پارٹیاں صرف اقتدار کے حصول کے لئے کام کرتی ہیں۔ جہاں نہ تو کسی نظریہ کا ، کسی اُصول کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور نہ پارٹیاں ایک دوسرے کی ضرورتوں کو سمجھتی ہیں۔ اب یہ دیکھیئے کہ بی جے پی اور شیوسینا میں مہاراشٹرا کے انتخابات میں پہلے ہی سے انتخابی گٹھ جوڑ کیا گیا اور دونوں نے یہ کام صرف اقتدار کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا۔ بنیادی طور پر بی جے پی اور شیوسینا کی سیاست ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی مخالفت پر قائم ہے۔ لیکن جب اقتدار کی بات آتی ہے تو نہ ماقبل انتخابات مفاہمت کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ایک دوسرے کی آبرو کا خیال رکھا جاتا ہے۔ مہاراشٹرا کے اسمبلی انتخابات میں اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی کو شیوسینا نے کئی دشواریوں سے دوچار کردیا اور انتخابی نتائج تمام اندازوں اور توقعات کے خلاف تھے۔ دونوں پارٹیوں کی مخالف اقلیتی روش ایک مشترکہ ایجنڈہ ہے ۔ دونوں پارٹیوں میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ بی جے پی اب قومی سطح کی پارٹی بن چکی ہے اور شیوسینا ابھی بھی مہاراشٹرا کے چند مخصوص علاقوں تک محدود ہے لیکن ان علاقوں میں شیوسینا کا دبدبہ ابھی بھی قائم ہے۔ شیوسینا کو الیکشن میں اتنی نشستیں ملی ہیں کہ وہ آج آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بی جے پی سے کوئی بھی بات منواسکتی ہے، اور یہی کچھ اس وقت مہاراشٹرا میں ہورہا ہے۔ نہ تو بی جے پی اپنے بَل بوتے پر حکومت بناسکتی ہے اور نہ شیوسینا کو حکومت تشکیل دینے کی مطلوبہ اکثریت حاصل ہے۔ یہ دونوں ریاست کی دوسری چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ موجودہ چیف منسٹر مہاراشٹرا فرنویس بھی کوئی بہت زیادہ کارکرد چیف منسٹر ثابت نہ ہوسکے، البتہ ان کو بی جے پی کی مرکزی قیادت کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار سے محرومی کا خطرہ درپیش ہونے کے باوجود صدر بی جے پی اور وزیر اعظم کی ٹولی میں شامل اہم مرکزی لیڈرس فرنویس کی تائید میں جُڑے ہوئے ہیں حالانکہ اب یہ خطرہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔ فرنویس کی مسلسل تائید کی وجہ سے خود بی جے پی میں شگاف پیدا ہوسکتا ہے۔ یہ بالکل سچ ہے کہ فرنویس کوئی بہت زیادہ عوامی تائید حاصل کرنے والے علاقائی لیڈروں میں شامل نہیں رہے۔ اگر وہ مزید کچھ دن تک اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہے تو اُن کے مخالفین اپنا ایک علیحدہ گروپ بناسکتے ہیں، یہ خطرہ فوری بی جے پی کے حلقوں میں محسوس کیا جارہا ہے۔

صرف وزیر اعظم مودی کی عدم موجودگی کی وجہ سے مخالف اور موافق بی جے پی گروپس خاموش ہیں۔ جہاں تک شیوسینا کا تعلق ہے اس میں فی الحال کوئی اس قسم کا خطرہ نظر نہیں آرہا ہے۔ حالانکہ شیوسینا کا کیڈر بھی منقسم ہے۔ پارٹی کے بانی آنجہانی بال ٹھاکرے کی یہ بڑی خوبی تھی کہ اُن کی موجودگی میں پارٹی کا چھوٹا سا چھوٹا لیڈر بھی سر نہیں اُٹھاسکتا تھا، اُن کے بھتیجے اور خود اُن کے اپنے بیٹے دونوں پارٹی پر قبضہ کرنے کیلئے ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں۔ اس بحث کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پارٹی نے کبھی اپنی کارکردگی کو وسیع کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آج بھی شیوسینا عملاً ہندوتوا کی طاقتوں سے فاصلے پر ہے، شیوسینا نے کبھی بھی کسی دوسری ریاست میں انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ انفرادی طور پر کچھ شیوسینک نے اُترپردیش اور بہار سے انتخابات لڑے تھے۔ کانگریس کے علاوہ اس وقت ملک کے سیاسی تناظر میں صرف بی جے پی قومی جماعت کہلا سکتی ہے۔ صرف مہاراشٹرا کی اسمبلی میں شیوسینا اپنا مؤثر وجود رکھتی ہے اور اسی ریاست میں شیوسینا، بی جے پی سے مقابلہ آرائی پر بَضد ہے۔ ابھی تک حکومت سازی کیلئے جو بات چیت ان دونوں پارٹیوں میں ہوئی اُن میں کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوسکی۔ دونوں اپنے موقف پر اٹل ہیں۔ بی جے پی ‘ شیوسینا کو شریک اقتدار کرنے کے لئے تیار ہے لیکن شیوسینا ریاست کے سب سے بڑے عہدے یعنی چیف منسٹر بننا چاہتی ہے۔عوامی موقف کچھ اس طرح ہے کہ شیوسینا اور نہ ہی بی جے پی خود سے حکومت بناسکتے ہیں۔ اسی دوران مہاراشٹرا کی دوسری اہم جماعت نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے سربراہ شرد پوار کانگریس لیڈر سونیا گاندھی سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ کانگریس کو اس بات کا ڈر ہے کہ اگر اُس نے مہاراشٹرا میں بی جے پی کی حکومت کی تائید کی تو اس کا بھرم کُھل جائے گا، اس لئے یہ امکان بہت کم ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے کہ بی جے پی سرکار کی کس اعتبار سے کانگریس تائید کرے گی اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اپنے عددی موقف کے لحاظ سے کانگریس یا کسی اور پارٹی کی تائید کے بغیر حکومت نہیں بناسکتی۔ اس لحاظ سے مہاراشٹرا کی موجودہ صورتحال ایک ’’پریشر کوکر ‘‘ کی مانند ہے کہ اس میں ڈالی گئی چیزیں باہر نہیں نکالی جاسکتیں۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر کس اُمید پر شرد پوار کانگریس کی جانب ملتفت نظروں سے دیکھ رہے ہیں، کیونکہ اُن کی پارٹی کی بھرپور تائید کے باوجود مہاراشٹرا میں این سی پی نہ تو شریک اقتدار ہوسکتی ہے اور نہ اُس کے لئے کوئی متبادل صورت ہے۔ مہاراشٹرا کی عوام کو یہ بات سمجھنا چاہیئے کہ انتخابی نتائج کے بعد کوئی بھی پارٹی اپنے نظریات اور ماقبل انتخابات اپنے موقف پر قائم نہیں ہے۔ بی جے پی بھی یہ نہیں چاہتی کہ شیوسینا کو چیف منسٹری کے جلیل القدر عہدہ پر فائز کیا جانا چاہیئے، اور یہ بھی اُس کی مجبوری ہے کہ ریاستی اسمبلی میں دوسری بڑی اکثریت رکھنے والی پارٹی شیوسینا کے بغیر اُس کا کام نہیں بن سکتا ہے۔ بی جے پی کی اسی مجبوری کا شیوسینا بھرپور استعمال کررہی ہے۔ جہاں تک اقلیتوں کا تعلق ہے دونوں پارٹیاں اقلیت دشمن ہیں۔ اقلیتوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ مہاراشٹرا میں ان دونوں بڑی پارٹیوں کی ملی جلی مخلوط حکومت بنتی ہے یا نہیں، وہ تو بس سمندر کے کنارے کھڑی ہوئی ایک ایسی اقلیت بن گئی ہے جو ساحل سمندر پر ٹہر کر موجوں کا تماشہ دیکھ سکتی ہے، ہمارے لئے شیوسینا اور بی جے پی کی ہی طرح کی پارٹیاں ہیں۔ یہ بات غور طلب ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے کوئی اُصول نہیں رہے، بے اُصولی کے اس جنگل میں کوئی بھی پارٹی کسی بھی پارٹی سے جھگڑا مول سکتی ہے یا اپنے مفادات کی خاطر کوئی بھی مفاہمت کرسکتی ہے۔ اس پس منظر میں دیکھا گیا تو مہاراشٹرا کی سیاسی صورتحال عوام کے لئے انتہائی مایوس کن ہے۔ مہاراشٹرا ، پنجاب کی طرح کوئی خوشحال ریاست نہیں ہے یہاں کچھ علاقائی اور مقامی مسائل بھی ہیں۔ مرہٹہ لابی جو اپنا چہرہ و اثر و رسوخ رکھتی ہے کبھی بھی اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں رہی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اقتدار کی دعویدار دونوں پارٹیاں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کررہی ہیں کہ ہمارا ملک ہندوستان صرف مہاراشٹرا تک محدود نہیں ہے، یہ ایک ایسا ملک ہے جس میں ہر ریاست کے الگ الگ مسائل ہیں۔ بی جے پی کو اس بات کا اندازہ ہوگیا ہوگا کہ صرف قومی مسائل جیسے دفعہ 370 کی منسوخی کا کوئی خاص اثر دوسری ریاستوں پر نہ پڑا، اور یہ بات بھی بی جے پی کو یاد رکھنی پڑے گی کہ ہر جگہ کسی ایک قومی مسئلہ کا بار بار تذکرہ بھی کوئی ووٹ بینک نہیں بن سکا۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں ہر ایک کے کچھ ایسے مسائل ہیں جن کا حل آزادی کے بعد 70 سال کے دوران برآمد نہ ہوسکا۔ بعض مسائل تو جوں کے توں برقرار ہیں۔ خود مہاراشٹرا میں کئی گروہ ایسے ہیں جو بی جے پی کے ہم خیال نہیں ہیں اور نہ تو وہ شیوسینا کے پوری طرح حامی رہے ہیں۔ ایک فرق دونوں پارٹیوں میں یہ ضرور ہے کہ شیوسینا کا کیڈر زیادہ مضبوط ہے جبکہ بی جے پی کا کیڈر صرف انتخابی مہم میں مصروف نظر آتا ہے، ان کاکوئی بڑا مقصد بھی نہیں ہے جبکہ شیوسینا کے ورکرس زیادہ اپنے اپنے مقاصد سے وابستہ ہیں اور یقیناً شیوسینا کا ورکر اپنی ایک محدود ہی سہی فکر و شناخت رکھتا ہے۔ شیوسینا کی کامیابی میں اسی کیڈر نے پارٹی کو اتنی کامیابی حاصل کرائی کہ وہ اقتدار کی مانگ کرسکتا ہے۔٭