ہریانہ کے مختلف شہروں اور اضلاع میں گذشتہ دنوں فرقہ وارانہ فساد برپا کیا گیا ۔ کچھ انسانی جانیں بھی تلف ہوئیں اور جائیداد و املاک کا بھاری نقصان ہوا ۔ سارے ملک میںاس کا تذکرہ رہا ۔ فرقہ وارانہ ماحول کچھ دوسری ریاستوں تک بھی متاثر ہوا تھا ۔ عدالت کی ہدایت کے بعد صورتحال کو قابو میں کرنے میں مدد ملی تھی ۔ گذشتہ دنوں ہی سپریم کورٹ کی جانب سے اشتعال انگیز اور شر انگیز تقاریر کو روکنے کیلئے اقدامات کی ہدایات دی گئی تھیں۔ تاہم ان ہدایات کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے ہریانہ میںمہا پنچایتوں کا انعقاد عمل میں لاتے ہوئے شر انگیزی کی جا رہی ہے ۔ پہلے تو کچھ مہا پنچایتوں کا انعقاد انتظامیہ کی اجازت کے بغیر عمل میں لایا جا رہا ہے ۔ ایسی مہا پنچایتوں کے خلاف یا ان کے منتظمین کے خلاف ہریانہ کا انتظامیہ یا پولیس فورس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے ۔ آج ایک مہا پنچایت کا انعقاد پولیس کی اجازت سے عمل میں لایا گیا تھا ۔ اس میں شرائط رکھی گئی تھیں کہ کوئی اشتعال انگیز یا نفرت انگیز تقریر نہیں کی جائے گی ۔ تاہم اس شرط کی صریح خلاف ورزی کی گئی اور اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہوئے دھمکیاں بھی دی گئیں۔ زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس مہا پنچایت کیلئے پولیس کا بھی وسیع بندوبست کیا گیا تھا ۔ پولیس عملہ کی موجودگی میں اس مہا پنچایت میں اشتعال انگیز تقاریر کی گئیں۔ ان تقاریر کے خلاف پولیس اور انتظامیہ نے کیا موقف اختیار کیا ہے ۔ کیا نوٹ لیا گیا ہے کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں اس کے کوئی اشارے نہیں ملے ہیں۔ اس مہا پنچایت میں دھمکی دی گئی کہ کوئی اگر انگلی اٹھانے کی کوشش کرے گا تو اس کے ہاتھ کاٹ دئے جائیں گے ۔ یہ کھلے عام دھمکی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والوں کو ہتھیار فراہم کئے جائیں تاکہ وہ اپنا دفاع کرسکیں۔ نوح ضلع کو برخواست کردینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ۔ کئی اور بھی مقررین نے اپنی تقاریر کے دوران مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے ریمارکس کئے اور مہا پنچایت میںشریک افراد کو اکسانے اور ورغلانے کی کوشش بھی کی ۔ منتظمین بھی اس پر خاموش رہے ۔
مہا پنچایتوں کا انعقاد در اصل مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور نفرت کو فروغ دینے کے مقصد سے ہی کیا جا رہا ہے ۔ ہریانہ کے شہروں میںجو کچھ بھی واقعات پیش آئے تھے وہ افسوسناک تھے ۔ ان کے ذریعہ انسانی جانوں کا اتلاف ہوا ۔ جائیدادو املاک کو تباہ کیا گیا ۔ دوکانیں جلائی گئیںاور سارے ماحول کو پراگندہ کردیا گیا تھا ۔ کشیدہ کردیا گیا تھا ۔ ان واقعات کے بعد حالات کو معمول پر لانے کی کوشش ہر گوشہ سے کی جانی چاہئے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ مہا پنچایتوں کے انعقاد کے ذریعہ ماحول کو مزید کشیدہ کرنے اور ملک کی ایک بڑی اقلیت کے خلاف اکثریت کو بھڑکانے اورا کسانے کے مقصد سے کیا جا رہا ہے ۔ گذشتہ دنوں انتظامیہ کی اجازت کے بغیر مہا پنچایت منعقد کی گئی تھی ۔ اگر انتظامیہ کی جانب سے اس کے منتظمین کے خلاف کارروائی ہوتی اور مقدمات درج کئے جاتے تو آج مہا پنچایت میں دھمکیاں دینے سے گریز کیا جاتا ۔ منتظمین یہ کہتے ہوئے خود بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں کہ انہوں نے مقررین کو اشتعال انگیزی سے باز رہنے کو کہا تھا لیکن مقررین نے اس ہدایت کو نظر انداز کردیا ۔ اگر منتظمین کا استدلال قبول کر بھی لیا جاتا ہے تب بھی مقررین کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے ۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق ان کے خلاف مقدمات درج کئے جاسکتے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات کے ذریعہ مستقبل میں اس طرح کی دھمکیوں اور اشتعال انگیزیوں کو روکا جاسکتا ہے اور نفرت پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کی جاسکتی ہے ۔
کسی بھی سماج میں مختلف طبقات کے مابین اشتعال انگیزی کرنے اور نفرت پھیلانے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اس کیلئے پہلے ہی سے ملک میں قوانین موجود ہیں جن کے ذریعہ کارروائی کی جاسکتی ہے اورا یسی مذموم حرکتیں کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کئے جاسکتے ہیں۔ تاہم انتظامیہ اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کو اس معاملے میں غیر جانبدار رہنے کی ضرورت ہے ۔ تاحال ہریانہ کی حکومت اور مقامی انتظامیہ کا رول غیر جانبدار دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ انہیںملک کے دستور و قانون کے مطابق اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہئے اور کسی کو بھی ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔