مہر بیوی کا شرعی حق

   

مہر کبھی شوہر کی میت پر بیوی سے معاف کروایا جاتا ہے یا پھر بوقت طلاق دفتر قضاء ت میں بادل نخواستہ ادا کیا جاتا ہے جبکہ وہ بیوی کا شرعی حق ہے اور شوہر کے ذمہ دیگر قرضوں کی طرح ایک واجب الادا قرض ہے اور عموماً مہر کی ادائیگی میں کوتاہی برتی جاتی ہے لیکن جہاں تک ممکن ہو اس کو جلد سے جلد ادا کردینا چاہئے تاکہ بیوی کو اس شرعی حق مل جائے اور شوہر کارِقرض سے سبکدوش ہوکر آخرت میں باز پرس و مواخذہ سے محفوظ ہوسکے ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اور عورتوں کو ان کے مہر خوشدلی سے ادا کیا کرو پھر اگر وہ اس ( مہر ) میں سے کچھ تمہارے لئے اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو تم اس کو خوشگوار اور سازگار سمجھ کر کھاؤ ‘‘۔ (سورۃ النساء :۴؍۴)
نکاح کے وقت مہر کا ذکر ہو یا نہ ہو نکاح منعقد ہوجائیگا اور مہر شوہر کے ذمہ واجب ہوجائیگا ۔ اگر بوقت نکاح مہر کا ذکر ہو تو مقررہ مہر ادا کرنا لازم ہوگا اور اگر مہر کا ذکر نہ ہو تو مہر مثل یعنی لڑکی کے دھیالی عورتوں کے مہر کے مماثل دینا لازم ہوگا ۔ حتی کہ اگر کوئی مہر کی نہ نفی کردے کہ وہ مہر نہیں دیگا یا وہ اس طرح کہے کہ مہر کے بغیر نکاح کرتا ہوں تب بھی شوہر کو مہر مثل دینا پڑیگا ۔
نبی اکرم ﷺ نے مہر کی اقل ترین مقدار کو بیان فرمایا : ’’کوئی مہر دس درہم سے کم نہیں ‘‘۔ موجودہ وزنی معیار کے مطابق دس درہم 21 گرام 264 ملی گرام چاندی کے مماثل ہوتے ہیں ۔ مہر میں کم سے کم اتنی مقدار میں چاندی یا اس کی مالیت کی کوئی اور چیز دینا ضروری ہے ۔ فقہ حنفی کی رو سے اس مقدار مہر سے کم ہو از روئے شرع مہر کا اطلاق نہیں ہوتا۔ مہر کی کوئی حد مقرر نہیں جتنا چاہے باندھا جاسکتا ہے لیکن استطاعت سے زیادہ باندھنا پسندیدہ نہیں ہے ۔ بعض ناعاقبت اندیش لوگ اظہاربرتری میں اپنی استطاعت سے زیادہ مہر باندھتے ہیں اور خدانخواستہ میاں بیوی میں نباہ نہ ہو تو اس کا خمیازہ بھی بھگتے ہیںیا ایسی غیراخلاقی و غیرشرعی حرکتیں کرتے ہیں کہ لڑکی اور اس کے گھر والے مجبوراً مہر معاف کرنے یا کم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔
ہر لڑکی کا مہر یکساں نہیں ہوگا بلکہ خاندان ، قبیلہ ، عمر ، جمال ، مال ، شہر ، عقل ، دینداری ، ادب ، اخلاق ، ان بیاہی ، شادی شدہ وغیرہ کا اعتبار کرتے ہوئے متفاوت ہوگا ۔
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عورتوں کے کثیر مہر متعین کرنے کے رجحان کو دیکھتے ہوئے مہر کی حد کو مقرر کرنا چاہا تاکہ نکاح میں سہولت رہے اور دشواری نہ ہو ۔ آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا : کہ تم چالیس اوقیہ چاندی سے بڑھ کر مہر مت باندھا کرو جو بھی اس سے ایک اوقیہ زیادہ باندھیگا وہ اوقیہ بیت المال میں جمع کردیا جائیگا ۔ ایک عورت نے اعتراض کیا اور کہاکہ آپ کو یہ حق حاصل نہیں ہے ۔ حضرت عمرؓ نے کہا کیوں نہیں ہے ؟ تو اس نے کہا اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’تم ( اپنی بیویوں کو ) ڈھیر سارا مال دے چکے ہو تو تم اس میں سے کچھ بھی نہ لو ‘‘ ( سورۃ النساء ۔۲۰) اس عورت کے استدلال کو سنکر حضرت عمرؓ نے فرمایا اے پروردگار مجھے معاف فرما ۔ لوگ عمر سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھنے والے ہیں ۔ (ابویعلی)
عورتیں خطیر مہر کا مطالبہ کرسکتی ہیں لیکن شریعت مطہرہ میں خواتین کے معیار کے ساتھ شوہری استطاعت اور سہولت ادا کو ملحوظ رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔
مہر کا تعلق دینداری ، تقویٰ اور پرہیزگاری سے نہیں ہے یعنی جو زیادہ مہر مقرر کریگا وہ زیادہ پارسا ہوگا ایسا نہیں ہے اور نہ ہی اس قدر کم باندھنا چاہئے کہ لڑکی اور اس کے افراد خاندان کو تکلیف و خفت ہو ۔ بعض نوجوان لاکھوں روپئے شادی پر خرچ کرتے ہیں اور جب مہر کی بات آتی ہے تو وہ نہایت قلیل مہر مقرر کرنے پر مصر ہوجاتے ہیں اور اس کو دینداری سمجھتے ہیں جوکہ شرعاً قابل اصلاح نظریہ ہے ۔
بعض ماڈرن ذہن کے لوگ مہر کو محض مالی معاوضہ سمجھ کر میاں بیوی کے درمیان حقیقی پیار و محبت اور جذبۂ وفاداری کے خلاف تصور کرتے ہوئے مہر باندھنے کو صرف ایک رسم سمجھ رہے ہیں ۔ چنانچہ امریکہ میں ایک دینی مدرسہ میں طلباء کے تعلیمی مظاہرہ کے پروگرام میں شریک تھا ، ظہر کی نماز کے بعد ایک عرب لڑکا اور انگریز عورت کے عقد نکاح کے لئے پہنچے ، مجھ سے خطبہ نکاح کی خواہش کی گئی ، بوقت ایجاب و قبول لڑکے سے مہر سے متعلق پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا کہ صرف ایک ڈالر مہر کے عوض میں نکاح کررہا ہوں ۔ میں نے مداخلت کی اور کہاکہ مہر کو قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اور وہ دلہن کا حق ہے اس کی تعین میں دلہن کے حسب نسب کے علاوہ اس کی تعلیم ، عمر و اوصاف کا بھی لحاظ ہوگا ۔ میری بات لڑکے کو سمجھ میں آئی اور اس نے اپنی سالانہ آمدنی کا ایک تہائی حصہ یعنی بیس ہزار ڈالر مہر مقرر کیا ۔
جو مہر نقد ادا کیا جاتا ہے اس کو ’’مہر معجل‘‘ کہتے ہیں اور جو مہر دیر طلب ہوتا ہے اس کو ’’مہر مؤجل ‘‘ کہتے ہیں ۔
عموماً شہر حیدرآباد و مضافات میں رواج ہے کہ مہر میں نقد رقم کے علاوہ مقررہ ’’دینار سرخ‘‘ و ’’دینار شرعی‘‘ بااندھتے ہیں ، اور لوگ لاعلمی کی بناء ’’دینار سرخ ‘‘ سے سونا اور ’’دینار شرعی‘‘ سے چاندی مراد لیتے ہیں جبکہ دونوں سے سونا ہی مراد ہوتا ہے البتہ ’’دینار سرخ‘‘ ایک اشرفی قدیم بارہ ماشے تولہ سونا کے مساوی ہوتا ہے اور ’’دینار شرعی‘‘ تین ماشے ایک رتی سونا کے برابر ہوتا ہے ۔ دینار سرخ و دینار شرعی میں مہر باندھنا کوئی ضروری نہیں ہے ۔
مہر بمنزل قرض ہے ، جتنی مقدار میں رقم قرض لی گئی تھی اسی کے بقدر واپس کرنا ہے بھلے ادائیگی میں سالہا سال بیت گئے ہوں ، اسی طرح اگر کوئی پچاس سال پہلے (۵۰۰) روپئے مہر باندھا تھا تو پچاس سال بعد اتنی ہی مقدار میں مہر ادا کرنا لازم ہے ۔ البتہ اگر وہ پچاس سال پہلے پانچ تولے سونا مہر مقرر کیا تھا اور آج ادا کرنا چاہتا ہے تو اس کو آج کے حساب سے پانچ تولے سونا یا اس کی مالیت ادا کرنا ضروری ہوگا ۔
اگر کوئی شخص انتقال کرجائے اور وہ اپنی بیوی کا مہر ادا نہ کیا ہو اور متروکہ جائیداد و سرمایہ چھوڑا ہو تو سب سے پہلے اس کی تجہیز و تکفین کے مصارف کے بعد تقسیم جائیداد سے قبل بیوی کا مہر ادا کیا جائیگا ۔
شوہر کے انتقال پر بیوی افسردہ ، غمگین اور رنجیدہ رہتی ہے ، رنج و غم کے ماحول میں بعض خواتین یہ اپنا فرض سمجھتی ہیں کہ بیوی کو میت کے سامنے لاکر مہر معاف کرنے پر مجبور کرتی ہیں اور معاف کرنے تک ڈولا اُٹھانے نہیں دیتیں ، غمزدہ بیوی خواہی نہ خواہی مہر معاف کردیتی ہے جبکہ مرحوم صاحب جائیداد ہو تو بیوی کو اس کا حق مہر ضرور ملتا ہے اور بعض خواتین اس وقت تو معاف کردیتی ہیں پھر جب نارمل ہوتی ہیں اور جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ درپیش آتاہے تو اپنے مہر کا مطالبہ کرتی ہیں اور یہ دعویٰ پیش کرتی ہیں کہ اس وقت وہ مجبور تھیں بادل ناخواستہ معاف کی تھیں ۔ ایسی خواتین کو یہی جواب دیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ معاف کرنے کے بعد وہ دوبارہ مہر کا مطالبہ نہیں کرسکتیں بھلے وہ مجبوری ہی میں معاف کرنے کا اعلان کی ہو۔
بعض لوگ جذبات میں بیوی کو طلاق رجعی دیدیتے ہیں ، اور دفتر قضاء ت میں مہر کی رقم بھی جمع کرادیتے ہیں بعد ازاں دونوں میں صلح ہوجاتی ہے اور شوہر رجوع کرلیتا ہے تو رجوع کرلینے کے بعد شوہر بیوی سے مہر کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا اور اگر بیوی کو طلاق بائن دی گئی ہو تو دونوں میں رشتہ نکاح ختم ہوجائیگا اور بیوی اپنے مہر کی حقدار ہوگی پھر دونوں دوبارہ ازدواجی زندگی گزارنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ تجدید نکاح کرنا ہوگا ۔ مہر اقساط میں ادا کیا جاسکتا ہے ، شوہر اپنی خوشی سے مقررہ مہر سے زیادہ دے سکتا ہے اور بیوی مقررہ مہر سے کچھ مقدار کم بھی کرسکتا ہے اور بیوی کو اس کے زر مہر میں ہر قسم کے تصرف کا کامل اختیار رہتا ہے وہ حسب مرضی اپنے مصارف و اخراجات میں خرچ کرسکتی ہے نیز مہر کی ادائیگی کے وقت دو گواہ رکھ لینا مستحب ہے ۔
اُمہات المؤمنین اور
بی بی فاطمۃ الزھرا ؓ کے زر مہر
ذیل میں حضرت نبی کریم ﷺ کے ازواج مطہرات اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے زر مہر کی فہرست دی جاتی ہے تاکہ نوجوانانِ اسلام کو اُسوۂ حسنہ کی تقلید اور اس سے خیر و برکت حاصل ہو ۔
اُم المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ طلاء ( مساوی ۱۰۶۳ گرام ۲۱ ملی گرام چاندی ) ، اُم المؤمنین حضرت سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ، اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا، اُم المؤمنین حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا، اُم المؤمنین حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ، اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ، اُم المؤمنین حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ، اُم المؤمنین حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ( ۴۰۰ درھم یعنی ۸۵۰ گرام ۵۷ ملی گرام چاندی ) ، اُم المؤمنین حضرت اُم حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا (۴۰۰ دینار یعنی ۱۲۱۵ گرام ۱۰ ملی گرام سونا ) ، اُم المؤمنین حضرت میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا (۴۰ درھم یعنی ۸۵۰ گرام ۵۷ ملی گرام چاندی ) ۔
حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے مہر کے بارے میں علماء کی رائے مختلف ہے ۔ بعض (۵۰۰) درھم کے قائل ہیں ، بعض ۴۸۰ کے قائل ہیں اور بعض ۴۰۰ درھم کے ۔ محققین کے مطابق حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا مہر ایک سال کی خوراک کے مساوی تھا ۔ (مفتی محمد قاسم صدیقی تسخیر )