جذبۂ جنوں آخر اپنا رنگ لائے گا
منزلوں کی جانب تو چل پڑے ہیں دیوانے
ویسے تو ہندوستان میں میڈیا کی غیر جانبداری پر اب کوئی شبہات باقی نہیں رہ گئے ہیں۔ ہر ایک کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ میڈیا اقتدار کے تلوے چاٹنے میں مصروف ہے اور اپوزیشن کو دبانے اور کچلنے سے ہی اسے دلچسپی رہ گئی ہے ۔ وہ انتہائی منفی رویہ اختیار کرتے ہوئے حکومت سے سوال کرنے کی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری اور اخلاقی فریضہ کو پوری طرح سے فراموش کرچکا ہے ۔ ملک کی پانچ ریاستوں میں ہو رہے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کا موقف جس طرح قدرے کمزور نظر آ رہا ہے اور کانگریس کو عوام کی تائید ملتی جا رہی ہے ایسے میں میڈیا نے بی جے پی کے ترجمان کی طرح کام کرنا شروع کردیا ہے اور اپنے طور پر بی جے پی کیلئے حالات سازگار بنانے کی مہم شروع کردی گئی ہے ۔ بی جے پی کو ملک کی ان پانچوں ریاستوں میں شکست کا خوف ستارہا ہے جہاں انتخابی عمل جاری ہے ۔ بی جے پی قدرے مقابلہ میں دکھائی دے رہی ہے تو صرف راجستھان میں جہاں کئی دہوں سے ہر پانچ برس میں اقتدار تبدیل کرنے کی روایت چل رہی ہے ۔ حالانکہ کانگریس کی جانب سے اس روایت کو تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے لیکن بی جے پی یہاں کانٹے کی ٹکر دینے میں مصروف ہے ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ کسی طرح قدیم روایت کے سہارے راجستھان میں اقتدار حاصل کرتے ہوئے خفت اور ہزیمت سے بچا جاسکے ۔ اس میں بی جے پی کیلئے میڈیا سرگرم اور معاون رول ادا کرنے لگا ہے ۔ ریاست میں انتخابی عمل شروع ہونے سے قبل ہی کانگریس نے دو قائدین چیف منسٹر اشوک گہلوٹ اور سچن پائلٹ کے مابین صلح کرواتے ہوئے اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے ۔ سچن پائلٹ اور اشوک گہلوٹ دونوں ہی نے انتخابی مہم کے دوران اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے اور اس سے عوام میں ایک اچھا پیام پہونچایا گیا ہے ۔ جس طرح بی جے پی نے دونوں قائدین میں اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے اسی طرح بی جے پی بھی ایسا لگتا ہے کہ انتخابی عمل اور انتخابی مہم پر توجہ کرنے کی بجائے سچن پائلٹ کو ورغلانے اور اکسانے کی کوشش زیادہ کر رہی ہے تاہم اس میں اسے کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے ۔
بارہا سچن پائلٹ سے کرید کرید کر اختلافی امور پر سوال پوچھے جا رہے ہیں۔ ایک سے زائد مرتبہ سچن پائلٹ نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ اختلافات کو فراموش کرچکے ہیں ۔ آگے بڑھ چکے ہیں اور کانگریس قائدین اتحاد کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ عوام میں جاتے ہوئے ان کے ووٹ طلب کر رہے ہیں اور سبھی قائدین ایک ہی اجتماعی مقصد ہے کہ راجستھان میں کانگریس کیلئے اکثریت حاصل کی جاسکے ۔ اشوک گہلوٹ نے بھی سچن پائلٹ کے ساتھ اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے اپنے طور پر ان کے ساتھ تصاویر سوشیل میڈیا پر پیش کی ہیں۔ اس سب کے باوجود میڈیا کہیں سے کوئی موقع ہتھیانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ جہاں کوئی موقع دستیاب نہیں ہے تو اسے پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ تاہم یہ ابھی تک ممکن نہیں ہوسکا ہے لیکن اس سے میڈیا کی منفی اور چاپلوسانہ سوچ کی عکاسی ہوچکی ہے ۔ بات صرف راجستھان تک ہی محدود بھی نہیں رہ گئی ہے ۔ انڈیا اتحاد کو بھی نشانہ بنانے کا عمل شروع ہوچکا ہے ۔ انتخابی موسم میں معمولی اختلافات ہر پارٹی اور ہر اتحاد میں ہوتے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں نشستوں کے مسئلہ پر کانگریس اور سماجوادی پارٹی میں ناراضگی ہوئی ۔ یہ فطری بات ہے ۔ اس پر بھی سیاسی اتھل پتھل کی کوشش کی گئی لیکن وہ بھی کامیاب نہیں ہوئی ۔ اب بھی یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ انڈیا اتحاد میں پھوٹ ہو نے والی ہے ۔ راہول گاندھی اور اکھیلیش سنگھ یادو میں بن نہیں رہی ہے اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے سے دور ہونے لگی ہیں۔
ملک میں پانچ ریاستوں میں ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ انتخابی عمل عروج پر پہونچ چکا ہے ۔ جہاں تک انڈیا اتحاد کی بات ہے تو یہ اتحاد آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے تشکیل دیا گیا تھا ۔ اسمبلی انتخابات میں بھی اس اتحاد میں خیر سگالی کا مظاہرہ ہونا چاہئے تھا ۔ تاہم اگر نہیں ہوپایا تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ یہ کوئی طئے شدہ امر نہیں تھا ۔ اس کے باوجود میڈیا اور کچھ چینلس کی جانب سے اس کو بھی غیر ضروری طور پر ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ در اصل بی جے پی کی بوکھلاہٹ اور اپوزیشن کو ملنے والی عوامی تائید کا نتیجہ ہے ۔ اس سے سیاسی تبدیلیاں ہوں یا نہ ہوں لیکن میڈیا کا بھونڈا چہرہ ضرور بے نقاب ہوگیا ہے ۔