میں ، میری جدوجہد اور میرے طلبہ

   

سیدہ سعدیہ سلیم
افغانستان سے دو بھائی حسین خاں اور حسن خاں ہندوستان آئے۔ شمالی ہندوستان میں بسے میں انہی حسین خاں کی آٹھویں نسل سے ہوں۔ میرے دادا عین جوانی میں گذر گئے، میرے والد اپنے چچا کے زیرسرپرستی رہے۔ خاندان کا ساتھ اور چچا کی سرپرستی میں میرے والد نے تعلیم پائی۔ سبھی تعلیم کے پیشے سے وابستہ رہے۔ میں تیسری نسل سے ہوں جس نے یہ پیشہ اپنایا۔ میرا بچپن، تعلیمی، اخلاقی، مذہبی اور قدروں کی اہمیت ماننے والے ماحول میں گذرا، زندگی بہت اچھی گذری تھی کہ اچانک والد صاحب کی موت نے ہمیں جھنجوڑ کے رکھ دیا۔ امی نے جو فرض پہلے سمجھا اسے کیا۔ تعلیم چھوڑنا پڑا مگر اللہ جنت نصیب کرے، میرے شوہر کو انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی تو میں نے بی ایس سی، بی ایڈ، ایم اے، ایم فل اور پھر پی ایچ ڈی مکمل کی ۔ میرے اس چالیس سالہ سفر میں میں نے بہت تجربے کئے جو اُردو پڑھنے کیلئے جھجکتے تھے، ان میں خوداعتمادی کا جذبہ اُبھرا، قلم سے اپنے خیالات کا اظہار کرنا انہوں نے سیکھا۔ اسٹیج کا ڈر اُن سے دور ہوا۔ جس نے کبھی گایا نہیں، انہوں نے گاکر بتا دیا کہ ہاں ہم کرسکتے ہیں۔ اس کی مثالیں یہاں کے پروگرام ہیں۔ ٹی وی پر انہوں نے اپنے کارنامے دکھائے۔ میرا تو یہ حال ہے کہ ’’اندھا کیا چاہے دو آنکھیں‘‘ والا معاملہ ہے۔ پہلے بیاچ کی طالبہ کا وہ جملہ بھی یاد آتا ہے جب میں نے اسمبلی کیلئے پڑھنے کو کہا تو انہوں نے کہا۔ میں اسمبلی میں پڑھوں؟ میں مرجاتیوں! میں نے کہا کیوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کبھی نہیں پڑھے۔ میں نے کہا! ہم ہیں نا! تعلیم حاصل کرتے ہوئے تعلیم دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایک پرائیویٹ اسکول میں اُردو پڑھانے لگی، نندی اسکول کا ماحول پسند آیا۔ کام میں دلچسپی بڑھی اور دیکھتے ہی دیکھتے دس سال گذر گئے۔ لڑکیوں کا اسکول تھا، تعلیم کے ساتھ ساتھ دوسری مصروفیات بھی ہوتیں۔ ڈراموں کیلئے تیار کرنا، جب کوئی ڈرامہ کیا جاتا اور اس کی تعریف ہوتی تو دل خوش ہوجاتا۔ پھر لڑکیوں کے نصر اسکول میں موقع ملا۔ چھوٹے بچوں کو پڑھانا نیا تجربہ تھا لیکن کافی اچھا رہا۔
حیدرآباد پبلک اسکول میں اُردو ٹیچر کی جائیداد نکلی تو وہاں درخواست دی اللہ کو منظور تھا، وہاں چلی گئی اور یہیں میں نے ایم ایل ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔ یہاں بڑے بچوں کا ماحول جہاں لڑکے اور لڑکیاں دوران پڑھتے۔ آج بھی وہاں کے شاگرد ملتے ہیں تو بڑی خوشی ہوتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پندرہ سال گذر گئے۔ وظیفہ کا وقت آگیا لیکن چونکہ ستائس سال تعلیم دینے میں گذرے تو سوچا کہ نہیں، ابھی بھی اس کو جاری رکھوں تو یہاں گلینڈیل میں آئی اور اب اللہ کے فضاء سے انیسواں سال ہے۔ ایک چنوتی اور خاص طور پر میرے لئے لیکن ساتھیوں کا ساتھ ان کی ہمت نے یہ کڑی بھی پار کرادی۔ اس میں بھی ہم نے ایسے ایسے پروگرام کئے جو کہ مثالی بن گئے۔ تعلیم اور بچوں سے دلچسپی نے منصف کے بچوں کے صفحہ کی ذمہ داری قبول کی۔ اللہ کے فضل سے وہ اب تک جاری ہے۔ اس صفحہ کیلئے ہمارے بچوں کو بھی موقع ملتا رہا۔ جب کبھی کسی بچے کا لکھا ہوا، چھوٹا سا بھی مضمون آجائے تو انہوں خوشی ہوتی ہے۔
میری دو کتابیں شائع ہوئیں۔ مختلف رسالوں اور اخباروں میں مضامین شائع ہوئے۔ میرے مضامین کی کتاب پر اردو اکیڈیمی کی طرف سے انعام بھی ملا۔ حکومت اور آندھرا پردیش کی طرف سے اُردو کی درس کتاب کی سب ایڈیٹر رہی۔ بچوں کیلئے دو کامکس شائع کئے۔ ماحول، تعلیمی اور ساتھ بچوں کا،میں نے بہت کچھ سیکھا۔ بچوں کی نفسیات، ان کا رجحان، ان کی پسند ناپسند سبھی کو بہت قریب سے جانا، میرے مضامین کے موضوعات اور تعلیم اس کے مسائل، عورتوں کے مسائل رہے۔ مجھ سے جتنی مدد ہوسکتی ہے۔ اللہ مجھ سے کرواتا ہے اور یہ ہم نہیں کرتے، وہ ذریعہ بناتا ہے۔ ہمارے پاس اس کی امانت ہوتی ہے، جوکہ لوگوں تک پہنچائی جاتی ہے۔
زندگی میں اللہ نے بہت ساری عزت، شہرت اور ایوارڈس سے نوازا۔ جسے دیکھ کر اس کا دن رات شکر ادا کرتی ہوں کہ اس کرم فرمائی میری محنت اور نیت سے آج میں، اس مقام پر ہوں۔ میں اپنے آباء و اجداد کی بہت قدر کرتی ہوں کہ یہ ہمارے خاندانوں کا فرق ہے۔ خواہ وہ ذاکر حسین صاحب ہوں یا علامہ اقبال ؔ۔ تعلیم اور تعلیمی سفر تو خاندان سے ہی چلا آرہا تھا جس کے دھارے میں بہہ کر میں یہاں تک چلی آئی۔