’’میں صرف 14دن میں تلگو سیکھ لوں گی : ڈاکٹر تامل سائی سندراجن

   

محمد مصطفی علی سروری

‘‘

ڈاکٹر تامل سائی سندراجن نے تلنگانہ ریاست کے گورنر کا عہدہ سنبھال لیا۔ ریاست کی اس پہلی خاتون گورنر نے 9 ستمبر 2019 کو دیئے گئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ اندرون 14 دن تلنگانہ کی سرکاری زبان تلگو سیکھنے کے لیے پوری طرح کوشش کریں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ تلنگانہ کے گورنر کے طور پر اپنی نامزدگی کے بعد ریاست کے سماجی اور معاشی مسائل کا مطالعہ کر رہی ہیں۔ (بحوالہ اخبار’’ دی ہندو‘‘: 9 ستمبر 2019)

یہاں یہ بات قابل ذکر ہیکہ تامل سائی سندراجن نے صرف ایک دن قبل ہی اپنے عہدہ کا جائزہ حاصل کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ وہ تلنگانہ میں رہ رہی ہیں توان کیلئے یہاں کے عوام کی اور ریاست کی سرکاری زبان تلگو سیکھنا ضروری ہے اور وہ اس ضروری کام کو پورا کرنے پوری طرح سنجیدہ ہیں۔
جو لوگ سرکاری اور علاقائی زبانوں کی اہمیت نہیں سمجھتے ہیں وہ خاص طور پر اخبار ہندوستان ٹائمز کی اس خبر کا ضرور مطالعہ کریں جو 9؍ ستمبر 2019کو ہی “Language barrier impedes infra projects” کی سرخی کے تحت شائع ہوئی۔ اخبار کے نمائندے اشیش مشرا اور سومیا پلائی نے اپنی رپورٹ میں سنٹرل روڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سی آر آر آئی) کے حوالے سے لکھا کہ ہندوستان میں بڑے بڑے تعمیراتی اور انفراسٹرکچر کے پراجیکٹس کی تکمیل اور عمل آوری میں زبانیں ایک اہم رکاوٹ ثابت ہو رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق نہ صرف پراجیکٹس کی تکمیل میں تاخیر ہو رہی ہے بلکہ ان کے معیار تعمیر پر بھی خراب اثر پڑ رہا ہے اور پراجیکٹس کی کوالٹی متاثر ہو رہی ہے۔
رویندر کمار پرنسپال سائٹ ہیں جو ٹرانسپورٹیشن اور پلاننگ ڈویژن میں کام کرتے ہیں۔ ان کے حوالے سے رپورٹ میں لکھا کہ ملک میں جس تیزی کے ساتھ اسمارٹ شہروں کے انفراسٹرکچر کے لیے کام کاج چل رہا ہے اس میں زبان کی عدم واقفیت ایک رکاوٹ بن رہی ہے۔ نتیجہ میں پراجیکٹس اپنی مقررہ مدت میں پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ رہے ہیں۔ رویندر کمار کے مطابق سارے پراجیکٹس کی منصوبہ بندی انگریزی زبان میں ہوتی ہے لیکن پراجیکٹ میں عملی طور پر کام کرنے والے لیبر طبقہ کو انگریزی سے واقفیت نہیں ہوتی اور اگر وہ عملہ جو لیبر کو ہدایات جاری کرتا اور بنیادی سطح پر کام کاج کا ذمہ دار ہے، اگر وہ لیبر فورس کو ان کی اپنی زبان میں ہدایات اور معلومات فراہم نہ کرے تو بہت سارے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔
محمد دلشاد کا تعلق دربھنگہ، بہار سے ہے۔ اس کے والد ساجد تو بالکل ہی ناخواندہ ہیں اور بہار سے تعلق رکھنے والا یہ شخص کیرالا کے کوچی میں ایک جوتا ساز کمپنی میں کام کرتا ہے۔ دلشاد بھی اپنے چار بھائی بہنوں کے ساتھ کیرالا میں رہتا ہے۔ دلشاد کی ماں عابدہ نے دلشاد کو کیرالا کے ایک ملیالی سرکاری اسکول میں داخلہ دلوایا، جی ہاں دلشاد کی اور اس کے سبھی گھر والوں کی مادری زبان تو ہندی ہے مگر ان لوگوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ہم جس ریاست میں رہ رہے ہیں وہاں کی علاقائی اور سرکاری زبان کو نہ صرف جاننا ضروری ہے بلکہ تعلیم حاصل کرنا بھی بڑا اہم ہے۔ (بحوالہ اخبار ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ۔ بتاریخ 9؍ جون 2019) رپورٹ کے مطابق بہار سے تعلق رکھنے والے دلشاد نے کیرالا کے سرکاری اسکول سے جب دسویں کا امتحان لکھا تو اس کو سارے مضامین (A+) مارکس ملے اور خاص بات یہ تھی کہ اور اس نے اپنے سبھی امتحانات ملیالی زبان میں لکھے۔
بسوا جیت رائے بنگلور کے ایک ایم این سی میں پچھلے دس برسوں سے برسرکار ہیں۔چونکہ وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتے ہیں تو انہوں نے کبھی بھی کرناٹک کی علاقائی زبان کنڈا سیکھنے کی جانب توجہ مرکوز ہی نہیں کی۔ انہوں نے اخبار ٹائمز آف انڈیا کو بتلایا کہ جب ان کی لڑکی ان سے بہتر کنڈا بولنے لگی تو تب ان کو احساس شرمندگی نے مجبور کیا کہ وہ بھی کنڈا زبان سیکھیں۔

تاریخی طور پر جب مختلف علاقائی زبانوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جنوبی ہندوستان خاص کر تاملناڈو کے لوگوں کو اپنی تامل زبان کے حوالے سے سخت تحفظات رہے ہیں لیکن آج کے بدلتے ہوئے ہندوستان میں تامل زبان بولنے والے طلبہ اور نوجوانوں کی اکثریت ہندی زبان سیکھنے میں دلچسپی لے رہی ہے۔ ایس جئے راج، دکھشن بھارت ہندی پرچار سبھا کے جنرل سکریٹری ہیں۔ انہوں نے ٹائمز آف انڈیا کو بتلایا کہ تامل والدین کی بڑی تعداد اپنے بچوں کو ہندی زبان سکھانے کے لیے داخلہ دلوا رہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ہندی سیکھ کر اپنے لیے تعلیم اور روزگار میں زیادہ مواقع سے استفادہ کرسکیں۔
22 سال کے اجیت کمار کا تعلق بھی بہار کے نواڈا علاقے سے ہے۔ دو برس قبل تاملناڈو کے شہر چنئی میں اجیت کمار نے اپنی ایک چائنیز کھانوں کی اسٹال شروع کی۔ اجیت کمار نے بتلایا کہ مجھے چینی کھانوں کے پکانے کی ٹریننگ پوری کرنے ایک مہینہ لگا لیکن تامل زبان سیکھنے کے لیے اس سے کہیں زیادہ وقت ہوا۔ لیکن آج میں اپنے اسٹال پر آنے والوں کے ساتھ تامل زبان میں بات کرتے ہوئے ایک نیا اعتماد محسوس کرتا ہوں اور میرے ہاں کھانے کے لیے آنے والے لوگ بھی مجھ سے اپنائیت کا اظہار کرتے ہیں جب میں ان سے انہی کی زبان میں بات کرتا ہوں۔
یوسف علی خان جماعت اسلامی ہند خلوت (حیدرآباد) کے صدر ہیں۔ ان کے حوالے سے انگریزی اخبار ’’دی ہنس انڈیا‘‘ نے ایک رپورٹ لکھی۔ رپورٹ کے مطابق علاقہ چارمینار کے اطراف و اکناف کے رہنے والے تلگو زبان سے ناواقف ہیں اور نہ تو تلگو زبان بول پاتے ہیں اور نہ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے ہی پس منظر میں جماعت کی جانب سے ماہر تلگو اُستاد عبدالصمد کی خدمات حاصل کی گئی اور پرانے شہر حیدرآباد کے لوگوں کے لیے 30 روزہ تلگو سکھانے کا کورس شروع کیا گیا جس میں نوجوانوں کے علاوہ بزرگ حضرات نے بھی شرکت کی اور تلگو دانی سیکھی۔ یوسف خان کے حوالے سے اخبار نے لکھا کہ چارمینار اور اطراف کے علاقوں کے مکینوں کے لیے اب ضروری ہے کہ وہ تلگو زبان سے واقفیت حاصل کریں جو کہ بہت آسان ہے۔ (بحوالہ اخبار ’’دی ہنس انڈیا‘‘:8 ستمبر 2019)
قارئین آیئے اب ذرا ہم اپنا محاسبہ کریں کہ تلگو سیکھنے کے متعلق ہم مسلمانوں نے کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور تلگو سے عدم واقفیت کے سبب کتنے ہی سرکاری پروگراموں اور اسکیمات سے مسلمان محروم ہیں۔ کسی بھی زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے۔ ہاں زبانیں رابطہ کا اہم وسیلہ ہوتی ہیںاور ریاست تلنگانہ کے مسلمان اگر ریاست کی سرکاری اور علاقے کی ایک اہم زبان سے اپنے آپ کو ناواقف رکھتے ہیں تو یہ امر باعث اطمینان ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔ ذرا سونچئے گا اور غور کیجیے گا۔ ڈاکٹر تامل سائی سندراجن گورنر بن کر تلنگانہ آئیں ہیں۔ چاہے تو وہ بغیر تلگو سیکھے مترجم سے کام چلاسکتی ہیں مگر انہوں نے تو تلگو سیکھنے کا ارادہ ظاہر کردیا اور جن کو ریاست تلنگانہ میں رہنا ہے وہ کیا کہتے ہیں۔
(کالم نگار ، مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com