’’میں مودی ہوں‘‘ وزیراعظم کی خودستائی

   

غضنفر علی خان
اور باتوں کے علاوہ وزیراعظم مودی ایک خاص کامپلکس کے شکار ہورہے ہیں۔ یہ احساس اُن میں اپنی سیاسی عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ہر بات میں اُن کا یہ کہنا کہ یہ کامیابی میری وجہ سے ہوئی ہے، انتہائی گمراہ کن اور ساری قوم کے لئے فکرمندی کی بات ہے۔ قوم پرستی کو خود سے جوڑنے کی اُن کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اپنے انتخابی جلسوں اور روڈ شو میں اُن کے حامی ’مودی ۔ مودی‘ کے نعرے بلند کرتے ہیں۔ اُن کی کابینہ کے وزراء اور پارٹی کے صدر امیت شاہ بھی زبان درازی کرتے ہیں۔ کبھی اِن لوگوں نے ملک کو درپیش معاشی، سیاسی، مالی مسائل پر کچھ نہیں کہا۔ اپنی خود ستائی کے علاوہ اُن تمام کے پاس عوام کو سنانے کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جو نعرے مودی کی حمایت میں ریالیوں میں لگائے جاتے ہیں اُن کی کوئی اہمیت اس لئے نہیں ہے کہ ایک بہت بڑے مجمع میں چند افراد اگر اُن کی ستائش کرتے ہیں تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ افراد یا تو کرایہ کے ٹٹو ہیں یا پھر بی جے پی کے ’پرجوش حامی‘ ہیں۔ حلقہ پارلیمان امیٹھی میں کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے راست طور پر وزیراعظم سے سوال کیاکہ کیا قوم پرستی صرف مودی کی ذات تک محدود ہے، کیا وہ تمام لوگ جو اُن کی پارٹی یا خود ذاتی طور پر اُن کی حمایت نہیں کرتے ہیں، قوم پرست نہیں ہیں…؟ مودی نے تو اُن سے زیادہ خود کو اہمیت دی ہے، اُن کا یہ کہنا کہ دیش کو بچانے کے لئے بی جے پی کو ووٹ دیں کسی بھی اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ جتنی سیاسی پارٹیاں اس ملک میں ہیں اُن کی ملک سے وفاداری اور محبت کو انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہندوستان کے کمیونسٹ اور دائیں بازو کے نظریہ کے قائل یا اور کوئی سیاسی فکر کے حامل سوشلسٹ کی وطن سے وفاداری پر شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ آزادی سے پہلے بھی جنگ آزادی میں تمام سیاسی فکر رکھنے والوں نے جنگ کی تھی۔ سارا ہندوستان ایک ’جسد واحد‘ بن کر گاندھی جی اور اُن کے ساتھیوں پنڈت جواہرلعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد اور کئی دیگر لیڈرس نے جدوجہد میں حصہ لیا تھا بلکہ نریندر مودی کو یہ یاد ہوگا کہ اس تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں نے اپنی جانیں قربان کرنے والوں میں ہزاروں، لاکھوں مسلمان اور بالخصوص علماء شامل ہیں۔ ’ریشمی رومال کی تحریک‘ جس کو ہمارے ہزاروں ، لاکھوں علمائے دین نے چلائی تھی اُس کو کیا فراموش کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے اِن علماء نے پھانسی کے پھندے پر لٹکنا گوارا کیا لیکن آپ یا آپ کے ہم خیال لیڈروں کی طرح میدان جنگ سے بھاگنے کی کوشش نہیں کی۔ پھر بھی آپ اس کی قوم پرستی کے لئے اپنے آپ کو ایک شرط اولین کی طرح پیش کرتے ہیں۔ ہمارا ملک ہندوستان تمام تاریخ ساز شخصیتوں اور لیڈروں سے بلند و بالا ہے۔ ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ وہ اپنے عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے وطن کی خدمت کا فرض انجام دے رہا ہے۔ اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے لیکن جب سے بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے ساری تاریخ کو مسخ کرکے ہر واقعہ کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے قوم پرستی کے نئے معیارات بنائے جارہے ہیں۔ آپ کی پارٹی سے وفاداری یا آپ کی شخصیت سے متاثر ہونے کا کوئی لزوم نہیں ہے۔ اس ملک کا ہر کانگریسی چاہے ہندو یا مسلمان اتنا ہی دیش بھگت ہے جتنا آپ کی پارٹی کے یا خود آپ کی ذات کے لوگ ہیں۔ اپنے آپ کو اس ملک سے عظیم تر اور واحد نجات دہندہ سمجھنے کی مزید کوشش نہ کریں۔ ہندوستان عالمی تاریخ کا ایک ناقابل تقسیم جز ہے۔ اگر کسی نے اس کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی تو اس ناانصافی کو عام ہندوستانی قبول نہیں کرے گا۔ خود کو ہندوستان سے بلند و بالا سمجھنے کی روش ختم کیجئے۔ یہ ملک کسی شخص واحد کی ملکیت نہیں ہے۔ صدیوں کے عمل اور ردعمل کے نتیجہ میں آج ہماری یہ متنوع تہذیب اور ہمارا یہ شاندار کلچر وجود میں آیا ہے۔ نہ کبھی ملک کے رہنما گاندھی جی نے یا اُن کے ساتھی جواہر لعل نہرو نے اپنے آپ کو دیش بھگت ثابت کرنے کے لئے ایسی کوئی اُوٹ پٹانگ باتیں کی تھیں وہ خود کو ملک کا خادم اور خدمت گذار سمجھتے تھے۔ گاندھی جی، نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، حکیم اجمل خاں، شاستری جی نے ملک کی سوچ کو بدل دیا تھا اور یہ سوچ یہ فکر صحیح آج بھی قائم ہے۔ آپ یا آپ کی پارٹی کے مٹھی بھر لیڈر اس تاریخی ورثہ کو ہندوستانی قوم سے چھین نہیں سکتے۔ قوم پرستی صرف آپ کی تائید و حمایت سے نہیں ہوسکتی بلکہ ہمارے ملک کی ساری سرزمین اس کے پہاڑ، اس کی دریائیں، اس کے انسان اور اس کی تہذیبی ریاست ہمیشہ افراد سے برتر ہے اور برتر رہے گی۔ یہاں کسی فردِ واحد سے ہندوستان نہ قائم ہوا ہے اور نہ کبھی مستقبل میں ایسا ہوسکتا ہے۔ جو بھی لیڈر اور اس ملک کے عوام سے محبت کرتا ہے جو اُس کی آزادی کی حفاظت کرنا چاہتا ہے وہ آپ سے زیادہ ملک کا وفادار ہے۔ ختم کیجئے یہ سلسلہ خود کو وطن عزیز سے زیادہ اہم سمجھنے کی غلطی نہ کیجئے۔ آپ ایک فرد ہیں اسی پر قناعت کریں تو اس ملک کے وارے نیارے ہوسکتے ہیں۔ تاریخ میں ایسا کوئی ایک واقعہ بتایئے کہ جس میں کسی قومی رہنما نے اپنی ذات کو ملک سے زیادہ اہمیت دی تھی۔ وہ سب تو ایثار اور قربانی کے پیکر تھے۔ کبھی انھوں نے یہ نہیں کہاکہ بھارت سے زیادہ وہ اہم ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی ذات، اپنی شخصیت کو قربان کردیا تھا۔ کبھی کسی نے خود کی ایسی تعریف نہیں کی تھی جو آج آپ (مودی جی) کررہے ہیں۔
مودی جی آپ سے کس نے کہہ دیا کہ ملک صرف آپ کی قیادت میں برقرار رہ سکتا ہے۔ پنڈت نہرو نے ایک مرحلہ پر جب یہ کہا تھا کہ وہ سیاست سے دستبردار ہوجائیں تو اُن کی کابینی رفیق قدوائی نے پنڈت جی سے پوچھا تھا کہ کب آپ سیاست کو تیاگ دے رہے ہیں۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ آپ (نہرو) کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے بغیر ہندوستان نہیں رہ سکتا۔ پنڈت جی نے انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ قدوائی صاحب کے اِس ریمارک کو سہہ لیا حالانکہ نہرو کے دور میں کسی کی ہمت نہیں تھی کہ اُن کے بارے میں ایسی صاف گوئی سے کام لیں۔ ایسی کئی مثالیں ہماری عصری تاریخ میں موجود ہیں جن کو سن کر یہ یقین ہوتا جارہا ہے کہ ہمارے بزرگ جو ملک کی خدمت کرتے رہے ہیں وہ کبھی اپنی شخصیت کو اس ملک سے بالاتر یا اس کے لئے ناگزیر نہیں سمجھتے۔ مودی جی آپ کا بس چلے تو آپ ملک بھر میں اپنے مجسمہ نصب کردیں گے۔ یہ سوچ آپ اور آپ کی پارٹی کے لئے تباہ کن ثابت ہوگی۔ خدارا یہ انانیت، یہ خود پرستی اور ڈھکوسلے کی قوم پرستی کا سلسلہ کم از کم اب ختم ہونا چاہئے ورنہ اس کے ناقابل بیان اثرات مرتب ہوں گے۔ قوم پرستی ہم تمام ہندوستانی باشندوں کا وطیرہ ہے اور ہم اس کا دامن نہیں چھوڑیں گے۔